تحریر: خرم علی عمران۔۔
ایک دوست کو بڑا غصہ آیا یہ عنوان پڑھ کر کہنے لگے کہ ہائے ہائے، لوگ بھی مشہور ہونے کے لئے کیسی کیسی حرکتیں کرتے ہیں،مزید فرمایا کہ ارے بھائی گندگی تو گندگی ہی ہے نا اس میں بیش بہا فوائد کہاں سے لے آئے آپ؟ اور میں عرض کرتا ہی رہ گیا کہ حضرت پڑھ تو لیجئے ،بڑے بڑے مزاح نگاروں اور انشا پردازوں کی نقل کرتے ہوئے لکھنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کہاں جناب! وہ تو کہہ کر یہ جا اور وہ جا۔ اور ہم اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔
ویسےعجیب سا عنوان ہے نا، کرپشن تو بری چیز ہے،نقصان دہ ہے،تو اس کے فوائد اور وہ بھی بیش بہا کیا معنی؟ تو جناب ایسا نہیں ہے،ذرا سا توجہ دیں گے تو آپ بھی بدعنوانی کے بیش بہا فوائد ضرورسمجھ لیں گے۔تو سنیں دل تھام کے ذرا کرپشن یعنی بد عنوانی کی فرضی داستانِ طلسم ہوشربانما، ہوا کچھ یوں کہ جناب جھوٹ یعنی دروغ صاحب نے بڑی محبت سے اپنی چھوٹی بہن خود غرضی خانم کے بیٹے تکبر خان اکڑو کےساتھ اپنی بیاری راج دلاری بیٹی رشوت نازکی شادی بڑی دھوم دھام سے کی، آج تک شیطانی و سفلی دنیا میں اس شادی کو یاد کیا جاتاہے، شیطان نے بھی کیا مست رقص کیا تھا صاحب اس شادی میں جھوم جھوم کر، اور نتیجتا ٹھیک معینہ عرصے سےالعجب کچھ عرصےقبل ہی نجانے کیوں، ان دونوں کے ہاں ایک بیٹی نے یا اس شاہکار نے جنم لیا جس نے ایک دنیا کو ہلا رکھا ہے یعنی بد عنوانی یا کرپشن، یعنی کہ بہ تصرف کہہ سکتے ہیں کہ۔۔۔ اس کی پوتی نے اٹھا رکھی ہے سر پر دنیا، یہ تو اچھا ہوا کہ جھوٹ کو پوتا نہ ہوا۔۔
آج کل سارے عالم پر چھائی ہوئی کرپشن بیگم نے جو تہلکہ اپنی اداؤں سے مچارکھا ہے وہ اظہرمن الشمس ہے، کرونا وائرس نے بھی ایسا ہی تہلکہ مچا کر ریکارڈ توڑنے کی اپنی سی کوشش ضرور کی ہے لیکن یہ عارضی صورتحال ہے اور بد عنوانی کا تہلکہ دائمی ہے،وہ اپنے کرشن چندر نے اپنے افسانے ًکچرا بابا ً میں کیا خوب لکھا ہے کہ ایسا تو ہوسکتا ہے کہ شاید کبھی دنیا سے خوشی ،پاکیزگی اور سچائی یکسر ختم ہوجائے لیکن ایسا ہونا مشکل ہے کہ گندگی اور برائی یکسر ختم ہوپائے ۔خیر ہمیں اوروں سے کیا ،ہم تو سب سے پہلے پاکستان کے قائل ہیں نا، سو وطن عزیز میں کرپشن راج اور اس کے فوائد پر یہ تحریر پیش ہے پڑھیئے اور اگر موڈ ہوجائے تو سر بھی دھنیئے، کرپشن بیگم کی ایک خاصیت بتاتا چلوں کہ یہ طلسم ہوشربا کے عمرو عیار کی طرح بھیس بدلنے میں اتنی ماہر ہوچکی ہیں کہ بیک وقت کئی شکلوں میں پائی جاتی ہیں، مثلامالی کرپشن، اخلاقی کرپشن، عوامی کرپشن، خواص کی کرپشن، سیاسی کرپشن، دانشوارانہ کرپشن، تعلیمی کرپشن، قانونی کرپشن،غیر قانونی کرپشن ،یہ کرپشن ،وہ کرپشن وغیرہ وغیرہ۔۔
اب آتے ہیں بد عنوانی کے فوائد کی طرف، تو میرے دوست ،غصے نہ ہوں ،ٹھنڈے دل و دماغ سے غور تو کریں کہ، کرپشن تو ایک شجرِ سایہ دار ہے، اس سے وابستہ ہزاروں کا روزگار ہے، اسکی دنیا میں لذات کی بہار ہے، اس سےجو دور وہ زبوں و خوار ہے،جسے دیکھو اس کی اداؤں کا شکار ہے، اس شاعرانہ اندازِ بیاں کے بعد ذرا دیکھیں کہ فرض کریں ایک ایسی دنیا جو کرپشن اور اس کے آبا و اجداد سے پاک ہو، ہر طرف ایمانداری ،سچائی، وفاداری کا بول بالا ہو، جسے دیکھو وہ نیکیوں کا متوالا ہو،صبح سے شام تک اور پھر شام سے دوبارہ اگلی صبح تک،ہر روز بار بار بس نیکی ہی نیکی،اچھائی ہی اچھائی، اخلاص ہی اخلاص، پیار ہی پیار، آسانیاں ہی آسانیاں ہوں، ہر شخص دوسرے کے کام آنا اپنا فرض عین سمجھتا ہو۔ سب سچ بولتے ہوں پورا تولتے ہوں وغیرہ تو پھر ایسی ٹھنڈی، پھیکی سیٹھی دنیا میں جینے کا کیا مزہ آئے گا، اور پھر کتنے سارے ادارے بھی تو ہیں نا جو کرپشن کی روک تھام کے لئے کام کررہے ہیں، وہ سب بھی توبند ہوجائیں گے، کتنوں کا لگا لگایا روزگار ختم ہوجائے گا بھائی، کہاں کھپائیں گے اتنے سارے بے روزگاروں کو، بتائیں ذرا؟
پھر یہ بھی سوچیں کہ بد عنوانی نہ ہو کرپشن نہ ہو تو سچائی اور ایمان داری کی کیا اہمیت رہ جائے گی کہ سارا مزہ اور معاملہ تو مقابلہء اضداد میں ہی پوشیدہ ہے۔ پھر مزید یہ کہ کرپشن سے کتنے بے صلاحیت لوگ جو میرٹ پر دو ٹکے کی اوقات نہیں رکھتے ، کروڑ پتی اور ارب پتی بنے گھوم رہے ہیں، خود بھی رج کے کھا رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بہت سے اوروں کو بھی کھلا اور پلا بھی رہے ہیں یہ فائدہ کیا کم ہے، پھر آپ یہ بھی دیکھیں کہ یہ پیارے پیارے معصوم سےکرپٹ لوگ کتنے میٹھے ہمدرد اور با اخلاق ہوتے ہیں، میٹھے بول میں جادو ہے کا عملی اطلاق کرتے ہیں ،غصہ کرنا تو جیسے انہیں آتا ہی نہیں، ویسے خیر وہ کسی مغربی دانشور نے کیا خوب کہا ہے نا کہ کرپٹ لوگ بہت بااخلاق اور میٹھے ہوتے ہیں کیونکہ بداخلاقی اور کڑواہٹ وہ افورڈ ہی نہیں کر سکتے ، کھیل بگڑ جاتا ہے نا پھر سارا۔
مزید یہ دیکھا گیا ہے کہ کرپشن کے پجاری یا متوالے عام طور پر بڑے دریا دل اور سخی ہوا کرتے ہیں،فلاح انسانیت کے لئے دل کھول کر خرچ کرنے میں ان کاجواب نہیں، کتنے رفاہی ادارے ان کے چندے سے ہی تو چل رہے ہوتے ہیں، کتنے بیماروں کا یہ علاج کروارہے ہوتے ہیں، پھرکسی ارضی یا سماوی آفات میں بڑھ چڑھ کر چندہ بھی تو یہ نیک دل افراد یہ حاتمِ ثانی دیا ہی کرتے ہیں، کوئی ضرورت مند شاذ و نادر ہی ان کے درِ دولت سے خالی ہاتھ جاتا ہے۔ مذہبی رسومات و احکامات کی بھی کماحقہ پابندی کرتے نظر اتے ہیں،ایک سوائے کرپشن کرنے کے آخر ان میں اور خرابی ہی کیا ہے؟ پھر ہمیں تو فخر کرنا چاہیئے کہ کیسے کیسے ہیرے موتی، کیسے کرپشن کے آفتاب و ماہتاب ہمارے وطن سے نکلے ہیں، اگر کرپشن میں آسکر ایوارڈ ٹائپ کا کوئی ایوارڈ دیا جاتا تو یقین ہے کہ ہمارے وطن کے سپوت یہ ایوارڈ اتنی مرتبہ جیت چکے ہوتے کہ ایوارڈ رکھنے کے لئے الماری چھوٹی پڑ جاتی، اور ان کا ریکارڈ کسی اور کے لئے توڑنا مشکل ہی نہیں بلکہ شاید قریب بہ محال ہوتا۔
وطن ِ عزیز میں موجودکرپشن کے فوائد اور طریقوں پر اگر پورا پی ایچ ڈی کی سطح کا کا تحقیقی مقالہ بھی لکھا جائے تو کم ہے، کہ کیسے کیسے اختراعی اور جدید سے جدید تر طریقوں سے بدعنوانی کے متوالے کرپشن دیوی کی پوجا میں مصروف و منہمک ہیں، ایسی ذہانت جسے منفی ذہانت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا سے کرپشن کی اور کروائی جارہی ہے کہ ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیئے! پھر مزید یہ کہ کرپشن کا نشہ جب چڑھتا ہے تو ہر نشہ پھیکا پڑ جاتا ہے، کیا طاقت،دولت ،شراب،شباب ، چرس اور ہیروئن میں نشہ ہو گا جو کرپشن میں ہوتا ہے، یہ کرپشن کرنے والوں سے پوچھئے کہ کیا مزہ کیا نشہ ہے جو یہ پروانے دین،ایمان،اخلاقیات کی پرواہ کئے بغیر شمع کرپشن پر مستانہ وار نثار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اور پھر آخر میں سب سے اہم بات کہ بھائی، اللہ میاں نے آخر اپنی حسین و جمیل جنت کے ساتھ ساتھ بڑی سی ہیبت ناک جہنم بھی تو بنائی ہے، اگر کرپشن اور اسکے آباؤ اجداد نہ ہوں اور یہ بد عنوانی کے پجاری یہ دیوانے یہ مستانے اگر نہ ہوں یا نہ رہیں تو پھر یہ وسیع و عریض جہنم آخرکیسے بھر پائے گی؟ یہ بھی تو اہم سوال ہے نا۔(خرم علی عمران)۔۔