تحریر: خرم علی عمران
چلیں نیچے سے یعنی ابتدائی سطح سے شروع کرتے ہیں۔ دیکھیں نا آپ گھر کے پاس کھڑے ہیں یا کہیں ذرا سنسان راستے سے جارہے ہیں، کہیں کھڑے ہوئے کسی سے موبائل فون پر بات کررہے ہیں۔ کسی بیسمنٹ پارکنگ میں گاڑی نکال یا لگا رہے ہیں اے ٹی ایم سے پیسے نکال کر لارہے ہیں یا اور اسی طرح کے بہت سے مواقع پر۔ تو ہوتا کیا ہے کہ دو موٹر سائیکل سوار یا کبھی کبھی دو بائیکیں اور چار سوار بھی ہوتے ہیں خصوصا جب گاڑی والوں کو لوٹنا ہو تو،آتے ہیں اور لوٹ مار کر کے چلتے بنتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ٹھمکے لگاتے رہ جاتے ہیں ۔ کبھی سوچا کہ یہ گلی کوچوں اور محلوں اور گھروں میں ہونے والی یہ بے خوف وارداتیں کس چیز کس وجہ کا شاخسانہ ہیں اورپھر اگر بالائی طبقے کی ملائی یعنی کریم تو ہٹائیں اور دیکھیں کہ بڑے کینوس پر ہونے والی بہت بڑی بڑی بدعنوانی کی کاروائیاں کیوں اتنی آسانی سے ہوجاتی ہیں تو ایک ہی وجہ ہے جناب کہ قانون کا خوف نہیں رہا کسی کو کہیں بھی۔
یہ کرپشن کا ایک پورا نظام بد ہے جو ایک گلی محلے سے لے کر محلات تک میں بدعنوانیاں کرنے والوں کا پشت پناہ، سرپرست اور محافظ ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اگر رشوت لیتے ہوئے پکڑے گئے ہو تو زیادہ رشوت دے کر چھوٹ جاؤ گے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ سزا کا خوف ختم ہونے کی حد تک کم ہوگیا ہے۔ عدالتی اور قانونی نظام میں اتنے جھول ہیں کہ ان لوپ ہولز میں سے ان نہ دکھائی دینے والے دروازوں ہر قسم کا مجرم جلد یا بدیر نکل جاتا ہے بچ جاتا ہے ۔یہ بات اب ایک یقین اور حقیقت کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ یہ یقینِ بد اور قانون و سزا کا خوف ختم ہوجانا کتنی بڑی مصیبت اور کتنا بھیانک عذاب ہے اس کا اندازہ اہل نظر خوب لگا سکتے ہیں۔ جب معاشرے سے قانون کا خوف ختم ہوجائے اور قانون کو موم کی ناک بنا کر جیسے اور جدھر چاہے موڑ لیا جائے تو پھر بڑے بڑے انسانی المیئے جنم لیتے ہیں،اجتماعی خودکشیاں ہوتی ہیں اور لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت خود کو ہلاک کرلیا کرتےہیں ۔ معاشرے اور ریاستیں انارکی اور خطرناک بگاڑ کا شکار ہوکر ناکامی کو تصویر بن جاتی ہیں اور کم قسمتی سے وطنِ عزیز میں فی الحال کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آرہی ہے آگے کی خدا جانے۔
اب اس کا حل کیا ہے؟ بہت آسان ہے لیکن ضرورت اسےعمل میں لانے کی ہے اور وہ ہے کہ اسلامی سزاؤں کے نظام کا نفاذ۔ کھلےعام سولیاں اور دیگر سزاؤں کا دیا جانا۔ ہو سکتا ہے کہ بہت سے روشن خیال انسانی حقوق کے شیدائیوں کو یہ بات پسند نہ آئے لیکن اگر اس معاشرتی بگاڑ کا اس سے آسان سادہ اور فوری طور پر پر اثر حل ہو تو بتادیں ذرا۔ ملک کے طول و عرض میں دوچار دفعہ کھلے عام عوامی طور پر اگر مجرموں کے ساتھ انکے جرم کے موافق ان سزاؤں کانفاذ ہوگیا تو شرح جرائم، یہ کرپشن، چوری ڈکیتی، یہ قبضہ مافیائیں اور دیگر بد عنوانی کرنے والے اجتماعی و انفرادی مجرمان گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب نہ ہوجائیں تو کہئیے گا۔ جب کسی کو کھلے عام سولی دی جائے گی،جب کسی کے سرِ عام کوڑے لگائیں جائیں گے جب سرِ عام ہاتھ قطع کئے جائیں گے تو سینکڑوں دیکھنے والے تو ویسے ہی تائب ہوجائیں گے۔ جرائم اس طرح صاف ہوجائیں گے جیسے جھاڑو سے مکڑی کے گھنے جالے جو دیکھنے میں بہت ہیبت ناک لگ رہے ہوتے ہیں لمحوں میں صاف ہوجاتے ہیں۔
اب اسلامی سزاؤں کو غیر انسانی وغیرہ کہنے والوں کے لئے شاہ فیصل مرحوم کا ایک واقعہ شیئر کرتا چلوں جو اس زمانے کےانٹر نیشنل پرنٹ میڈیا میں بہت تذکرہ کیا گیا تھا کہ جلالتۃالملک شاہ فیصل شہید جب امریکا کے اپنے پہلے دورے پر تشریف لے گئے تھے تو ائیر پورٹ پر ہی ایک غیر رسمی پریس ٹاک میں کسی امریکی رپورٹر نے بظاہر ادب سے مگر بباطن بڑے زہریلے انداز میں یہ سوال کیا تھا کہ مائی لارڈ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ سعودیہ میں اسلامی نظامِ سزا وحشیانہ اور غیر انسانی ہے؟ شاہ فیصل مرحوم نے اس سوال میں چھپے ہوئے شر کو بھانپتے ہوئے کمال اطمینان سے جواب دیا تھا کہ ۔۔ آپ سعودیہ تشریف لائیے میں جناب کو ائیر پورٹ پر ایک کلو گرام سونے کے بسکٹ دوں گا آپ ائیرپورٹ سے نکل کر انہیں اچھالتے ہوئے سارے سعودی عرب کا چکر لگا کر واپس ائیر پورٹ آجائیے اگر کہیں کوئی چھینا چھپٹی،چوری ڈکیتی ہوجائے تو میرے ہاتھ کاٹ دیجئے گا اور پھر یہی ایک کلوگرام اسی نیویارک ائیر پورٹ پر ابھی آپ کو دیتا ہوں آپ باہر نکل کر ایک چکر نیویارک کا لگاکر صحیح سالم انہیں واپس لے آئیے جو انعام کہیں گے دے دوں گا۔ رپورٹر اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ تو جناب! یہی اصل نکتہ ہے کہ سزا ملنے کا خوف بھی بہت بڑا فیکٹر ثابت ہوا کرتا ہے جرم و گناہ سے رکے رہنے کے ضمن میں۔ اور یہی خوفِ سزا کم قسمتی سے ہمارے ملک سے اب تقریبا ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جب تک یہ پورے جاہ و جلال سے بحال نہیں ہوگا جرائم کا خاتمہ تو درکنار کمی آنے کا تصور بھی خیال است و محال است و جنوں کا مصداق ہوگا اور جرائم کی شرح میں کمی آنا ناممکن ہوگا چاہے آپ ہر نکڑ پر ہر گلی میں پولیس اور رینجرز کو کیوں نہ لگا دیں جوکہ ویسے ہی ایک ناممکن سی بات ہے۔
یہ کرپشن کا نظام جس نے ریاست کے گرد ایک دبیز و مہیب سا مکڑی کا جالا بن دیا ہے صرف اسلامی سزاؤں کے بے لاگ اطلاق کی جھاڑو سے ہی صاف ہونا ممکن ہے۔ وہ ہمارے ایک بقراط قسم کے سیاستداں ہیں جو سگار کا دھواں اڑاتے ہوئے بڑے بڑے مسائل کو دھواں بنا کر یوں اڑدیتے ہیں کہ جیسے وہ تھے ہی نہیں انہوں نے اپنی دھن میں چند روز قبل ایک بات تو بڑی اچھی اور سچی کہہ دی کہ ارے بھائی کس چکر میں پڑے ہو صبح کو اعلانِ عام کردوکہ اگر عصر تک منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس نہ کیا تو بعد نمازِ عصر گردن اڑا دی جائے گی تو چالیس پچاس ارب ڈالر تو شامتک دو چار لوگ ہی دے دیں گے۔ بات تو سچ ہے ویسے مگر بات وہی ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا کہ اس نطامِ بدعنوانی کے سرپرستان اور تقویت دہندگان نہ صرف ملکی بلکہ بین لااقوامی اثر و رسوخ کے حاملین ہیں اور ان کا تو مفاد ہی اس میں ہے کہ ہم کسی صورت مالی و معاشی خود مختاری نہ حاصل کرلیں کیونکہ اگر ایسا ہوگیا تو جوہری توانائی کا حامل ایک معاشی طور پر خودمختار اور طاقتور ملک ان کے مسقبل کے سامراجی منصوبوں میں بہت بڑی رکاوٹ اور عالمی چودہراہٹ کے لئے بڑاخطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اپنی بھلائی کے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک خوشحال پر امن اور مستحکم وطن دینے کے لئے میرا نہیں خیال کہ اس سے زیادہ کوئی تیر بہ ہدف نسخہ اور فوری علاج اس بد عنوانی کا ممکن ہو سکتا ہے۔ مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے۔۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔(خرم علی عمران)