تحریر:طٰہ عبیدی
یہ کہانی ہے گمبٹ کے عجیب لاکھو کی ، یہ “کوشش ” اخبار کا صحافی ہے اور انتہائی با اثر ہے ، اٹھارہ نومبر دو ہزار اٹھارہ کو ایک پولیس افسر نے عجیب لاکھو اور پولیس افسران کی لاتعداد تصاویر شیئر کیں اور فرمایا سندھ کے کئی اضلاع یہ چلاتا ہے میں نے قہقہہ لگایا ، شواہد طلب کیے اور کھوج میں لگ گیا ۔
صحافی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ، کسی دوست ، ساتھی یا رشتہ دار کے ساتھ جائز مسئلہ ہوجائے تو پولیس افسران سے سفارش کرتے ہیں اور پولیس افسران مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل بھی کرتے ہیں لیکن عجیب لاکھو اور پولیس افسران کی کہانی عجب ہے ، کبھی پولیس افسران عجیب لاکھو کو استعمال کرتے ہیں تو کبھی لاکھو پولیس افسران کو تگنی کا ناچ نچاتا ہے ، سب سے پہلے “پی ایس پی” افسران نے صحافی کو تھانیداروں کی تعیناتی کے حوالے سے دو ہزار آٹھ میں استعمال کیا ، عدالت سے رجوع کیا گیا ، جیت مقدر بنی اور عجیب لاکھو پولیس افسران کی آنکھ کا تارا بن گیا ، ایک سابق ایڈیشنل آئی جی کراچی کے خلاف بھی عجیب لاکھو کو استعمال کیا گیا ، “ایماندار” سے مشہور ہونے والے سابق آئی جی سندھ نے صحافی پر بڑی مہربانیاں کیں ، جو ایس ایس پی عجیب لاکھو کو نظر انداز کرتا سینٹرل پولیس آفس سے فون جاتا ، ایس ایس پی کو ہدایت دی جاتی لاکھو صاحب کا مسئلہ حل کریں ، بڑے صاحب کا فون آجانے کے بعد ایس ایس پی اوطاق میں حاضری بھرنے لگتے اور صحافی مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا ۔
بات یہاں ختم ہوجاتی تو ٹھیک تھا ، اب عجیب لاکھو نے عجب دھندا شروع کردیا جو پی ایس پی افسر لاکھو کی فرمائش پر ٹال مٹول سے کام لیتا اُس کے خلاف عدالت اور اینٹی کرپشن سے رجوع کرلیتا ، پی ایس پی افسران نے اپنی پوسٹنگ کو کمائی کا دھندہ بنانے کیلئے عجیب لاکھو سے ہاتھ ملا لیا اور پھر مجروں کی محفل چلی ، سرکاری گاڑیوں میں سندھ بھر میں طوائفوں کی ترسیل بھی ہوتی رہی ، عجیب لاکھو پی ایس پی افسران کا لاڈلا بن گیا ، افسران بس عجیب لاکھو کو پروموٹ کرتے رہے ، عجیب لاکھو نے اس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے تھانیدار اور بڑے منشی تعینات کرائے اور خوب مال بنایا ، کچھ عرصہ قبل ایک جسم فروش خاتون نے گناہوں کی معافی مانگی تو ایک ایس ایس پی نے پنوعاقل تھانےمیں جھوٹا مقدمہ درج کرادیا ، خاتون کی موبائل لوکیشن بھی فراہم کرتے اور خاتون کو بلیک میل بھی کرتے ۔
ایک ڈی آئی جی ( جو دو ہزار سولہ میں کراچی پولیس ٹریننگ سینٹر میں تعینات تھے ) نے آنکھیں دکھائیں تو صحافی کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا ، کمبختی یہ ہوئی ایس ایس پی نوشہرو فیروز نے بھی آنکھیں پھیر لیں تو موصوف نے عدالت سے رجوع کرلیا جہاں سے فیصلے میں “بلیک میلر” کا لفظ بھی آگیا ، اس کے بعد سابق ڈی آئی جی سی آئی اے (جو حالیہ دنوں سکھر رینج میں تعینات ہیں ) نے عجیب لاکھو کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ، اب عجیب لاکھو گرفتار ہے جس کی ایک ویڈیو منظر عام پر آچکی ہے جس میں صحافی بتاتا ہے اُسے خیر پور سے گرفتار کیا گیا اور لاڑکانہ ایس ایس پی آفس پہنچایا گیا ، گمبٹ میں بھی عجیب کے خلاف بھتے کا کیس درج کیا گیا ہے ایک اور ویڈیو بیان عجیب لاکھو کے باورچی کا ہے جس میں وہ اوطاق میں آکر عیاشی کرنے والے افسران کو بے نقاب کررہا ہے ۔
عجیب لاکھو کے معاملے پر سندھ پولیس میں دو دھڑے بن چکے ہیں ، ایک گروپ چاہتا ہے ایسے کردار بے نقاب ہوں دوسرا گروپ چاہتا ہے انکوائری شروع نہ کی جائے ، اب صحافی گرفتار ہوچکا ہے لیکن اس کے سہولت کار پولیس افسران کو ریلیف کیوں دیا جارہا ہے ؟ طاقتور پولیس افسر کے خلاف کارروائی سے ٹانگیں کانپ جاتی ہیں ؟ اگر عجیب لاکھو پر بھتہ خوری کا مقدمہ درج ہے تو اس کے سہولت کار کون ہیں ؟ اگر مشتاق سرکی کے خلاف زمینوں پر قبضوں کے مقدمات درج ہیں تو اس کے سہولت کار کون ہیں ؟ آئی جی سندھ جب صحافی گرفتار کرلیے تو سہولت کار پولیس افسران کو بے نقاب کرنا بھی آپ کی ذمہ دادی ہے ۔ ایسا نہیں ہوسکتا صحافی کرپٹ ہوکر گرفتار ہوجائیں اور پولیس افسران ایمانداری کی تلواریں کندھوں پر سجائیں ۔(طحہ عبیدی)
(یہ تحریر طحہ عبیدی کی وال سے اڑائی گئی ہے۔۔ طحہ عبیدی ایک نجی چینل سے وابستہ باخبر صحافی ہیں۔۔ان کی تحریروں میں مخصوص کاٹ پائی جاتی ہے۔۔ یہ کافی بے باکی سے لکھتے ہیں، شاید اسی لئے پسند بھی کئے جاتے ہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔۔