تحریر: رضوان عبدالرحمان عبداللہ
دنیا بھرمیں خوف کی علامت بننے والے کرونا وائرس ہر گزرتے دن کے ساتھ دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ موزی مرض کی ویکسین دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے نا صرف دنیا بھر میں اب تک ہزاروں افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں بلکہ روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں لوگ بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ موزی وبا کئی ملکوں کی معیشت بری طرح متاثر کر چکا ہے۔ اس قیامت صغری کی شدت اتنی ہے کہ ہمارے اپنے اعلی حکام جو خواب خرگوش میں محو تھے نا صرف ان کو اپنی آنکھیں کھولنے کی زحمت کرنا پڑ گئی ہیں بلکہ نیم دلی سے کئی اقدامات بھی اٹھانا پڑ رہے ہیں۔
ہم لوگوں میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو کہ دل میں یہ خواہش نہ رکھتا ہو کہ کاش یہ وبائی مرض ہمارے ملک میں نا پھیلے ۔ لیکن اگر اجتماعی تناظرمیں اس وبائی مرض سے محفوظ رہنے کے لئے حفاظتی تدابیر کے عملی اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو وہ ہرگز حوصلہ افزا نہیں۔
ہمارے گھبرانا نہیں فیم ہینڈسم وزیراعظم جو اس وبا کے تناظر میں کچھ دن پہلے عالمی برادری سے پاکستان سمیت دیگرغریب ممالک کی مالی معاونت فراہم کرنے کی خواہش ظاہر کر چکے تھے نے قوم سے جو خطاب کیا اس خطاب کے تمام جملے گا، گے، گی پر ہی اختتام پزیر ہوئے۔ اس وبائی مرض کے خلاف بہترین عملی اقدامات اٹھانے والی سندھ حکومت کا نا صرف زکر کیا گیا بلکہ بغض معاویہ میں بلوچستان حکومت کی کارگردگی کی بھرپور تعریف کی۔ وینٹی لیڑز کی کمی کے دکھ کا رونا رونے والے شاید بھول گئے کہ ان کی حکومت اپنی حرکتوں کا پرچار کرنے کے لئے سوشل میڈیا کو چالیس ملین ڈالر کی رقم مختص کرنے کا سوچ رہی ہے ۔ ذخیرہ اندوزی کی وارننگ اگر ہمارے مشیر صحت ڈاکڑ ظفر مرزا اور اجتماعات میں جانے سے پرہیز کرنے کا مشورہ اگر پرویز خٹک کو پہلے مل جاتا تو شاید ۲۲ کروڑ عوام کو بھی سمجھنے میں دقت نا ہوتی ۔ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار زلفی بخاری شاید اسی نصحیت کی بنیاد پر تفتان میں قائم قرنطینہ سینٹر سے اپنے جان پہچان والوں کو بھگا کر لے گئے ۔ خان صاحب کے عملی اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ائرپورٹ پر ۹۰۰۰۰ افراد کے ماتھے پر تھرما میڑ رگڑنا اور عالم دین مولانا طارق جمیل سے ملاقات کر کے کورونا وائرس کے خاتمے کے لیے خصوصی دعائوں کی درخواست کرنا بلاشبہ قابل تحسین ہیں ۔
اس صورتحال میں ہم اپنے ملک کے عسکری اداروں پر نگاہ ؑڈالیں تو جانے ان کو تفتان کے قرنطینہ سینٹر کے بھگوڑوں کو پکڑنا دہشت گردوں کے پکڑنے کی نسبت کیوں مشکل لگ رہا ہے ۔ دعا ہے کہ ان کو اس آفت کی آڑ میں سمجھ آجائے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے ۔ مذہبی طبقے نے تو ایک دفعہ پھرثابت کیا ان کے درمیان علمی و فکری استفادے کے لئے سائنس سے رجوع کرنا باعث گناہ ہے۔ کہیں پر کرونا وائرس کو عذاب الہی سے تشبیہہ دے کر اس کی وجہ ایک مسلمان خاتون سے کچھ چینی نوجوانوں کی زیادتی بتائی جارہی ہے تو کئی علما کرام اس مرض کو اسلامی اقدار روایات کے خلاف بیرونی سازش قرار دے کر اپنے پیروکاروں کی رگ حمیت پھڑکا رہے ہیں۔ ایک علما کرام تو دل جوئی اس دلیل سے کرتے سنے گئے کہ بیماری چھوت چھات سے نہیں لگتی، جب اللہ لگاتا ہے تو لگتی ہے۔ اللہ نہ کرے اس آفت میں کچھ ایسے مولوی صاحبان بھی منظرعام پر وار ہو جائیں جو حکومتی اقدامات کی تائید کرنے والے علماکرام کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا شروع کردیں۔ پیغمبرانہ پیشہ سے منسلک جہاں بے شمار ڈاکڑز جہاں انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں وہاں ایسے پیشے سے منسلک ایسے بھیڑیوں کی خبریں بھی منظر عام پر آ رہی ہیں جو آفت زدہ علاقوں میں کام کرنے سے انکاری ہیں یا معمولی نزلہ زکام کی آڑ میں لوگوں کو بٹور رہے ہیں۔ کاروباری حضرات کے تو کیا کہنے شاید ان لوگوں کی عید سے پہلے عید ہو گئی کوروںا وائرس کا حفاظتی سامان اول دستیاب نہیں اگر دستیاب ہیں تو آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں میں نظر آتی ہیں ۔ خیر اس قسم کے زخیرہ اندوز تاجروں کو وزیر اعظم کی دعوت تو مل گئی ہو کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں ورنہ ان کے خلاف بھی ایسا ایکشن لیا جائے گا۔ (جیسے آٹا اورچینی کو زخیرہ کرنے والوں کے خلاف لیا گیا تھا) جانے ریٹنگ کی دوڑ میں بازی لے جانے والے میڈیا کے وہ پھنے خان المعروف چھاپا مار گروپ کہاں غائب ہیں جو ہسپتالوں اور ہوٹلوں میں جا کر بخوبی انتظامیہ کا کردار کرتے ہیں، جنہیں پارکوں میں بیٹھے جوڑوں کی غیراخلاقیت نظر آ جاتیں ہیں لیکن زخیرہ اندوزوں کی گودوں میں پڑی ان کی زخیرہ اندوزی دیکھنے سے قاصر ہیں۔ ایک مشہورومعروف سنگرجس نے کئی لوگوں کی جوانی اور بچپن سے جڑے ایک خوبصورت کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جانے کیوں انگلی کٹوا کر کورونا وائرس کے خلاف لڑنے والوں میں اپنا نام لکھوانے پر مصر ہیں ، ویسے فنکار کو معاشرے کا آئینہ کہا جاتا ہے ۔
اب اگر عمومی رجحانات کا جائزہ لیا جائے تو کئی لوگ بازاروں میں اپنے اپنے بساط کے مطابق زخیرہ اندوزی میں سرگرداں ہیں ۔ جن لوگوں کو خریداری سے فراغت مل چکی ہیں وہ تفریحی مقامات کا رخ کررہے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو شادی ہالز کے بند ہونے کی وجہ سے دوسروں کے مال کا ضائع نا کرنے کا دکھ کھایا جارہا ہے تو مہینوں مہینوں مسجد کا رخ نا کرنے والے بھی مسجدوں میں لمبی سورتوں والی جماعتیں کرانے پر مصر ہیں ۔ اب اگر آپ کے ذہین میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا روای نے انفرادی طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری ادا کی ہیں تو ایسے لوگوں کا منہ توڑ کر جواب دینا چاہتا ہوں کہ روای بزات خود بغیر ہاتھ دھلے اور ماسک کے اپنے دوستوں کی محفل میں اس دیسی سائنسدان کی ویڈیو شیئر کر کے خوب داد وصول کر رہا ہے جو کورونا کی پھیلاو کا وجہ اپنی بڈھی ڈینگی کا بدلہ لینا بتا رہا ہے ۔ شاید اس لئے کہاجاتا ہے کہ ہم خود معاشرہ ہیں ۔( رضوان عبدالرحمان عبداللہ)۔۔