دوستو، آج کل ملک بھر میں ’’کرونا وائرس ‘‘ کے چرچے ہیں۔۔ چین میں کرونا وائرس کے انسانی حملے کے بعد دنیا بھر میں بے یقینی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ یہ وائرس انسانی سانس کے نظام پر حملہ آور ہوکر ہلاکت کی وجہ بن سکتا ہے اور اب تک متعدد افراد اس کے ہاتھوں لقمہ اجل بن چکے ہیں۔کرونا وائرس کی نصف درجن سے زائد اقسام دریافت ہوچکی ہیں۔اسے ’’کرونا‘‘ کانام کیوںدیاگیا؟ جب اسے خردبین کے ذریعے دیکھا گیا تو نیم گول وائرس کے کناروں پر ایسے ابھار نظرآئے جوعموما تاج (کراؤن) جیسی شکل بناتے ہیں۔ اسی بنا پر انہیں کرونا وائرس کا نام دیا گیا ہے کیونکہ لاطینی زبان میں تاج کو کرونا کہا جاتا ہے۔۔سوشل میڈیا پر یہ سوال بھی اٹھایاجارہا ہے کہ اس وائرس سے بچا کیسے جائے؟؟ عالمی ادارہ صحت نے اس ضمن میں باتصویر ہدایات جاری کی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے۔۔بار بار اچھے صابن سے ہاتھ دھویا جائے۔ سردی اور زکام کے مریضوں سے دور رہیں۔ کھانستے اور چھینکتے وقت منہ اور ناک ڈھانپیں۔ پالتو جانوروں سے دور رہیں۔ کھانا پکانے سے قبل اور بعد میں ہاتھوں کو اچھی طرح دھوئیں۔ کھانا اچھی طرح پکائیں اور اسے کچا نہ رہنے دیا جائے۔ کسی کی بھی آنکھ ، چہرے اور منہ کو چھونے سے گریز کیجیے۔ عالمی ادارہ صحت نے جس طرح کی ہدایات دی ہیں وہ وضو سے پوری ہوجاتی ہے۔ اس طرح دن میں پانچ مرتبہ وضو کرنا ہر طرح کی انفیکشن سے بچاؤ میں بہت معاون ثابت ہوتا ہے۔
ڈاکٹر کہتے ہیں کہ صبح جلدی اٹھنے سے عمر بڑھتی ہے۔لیکن شاید وہ یہ بات نہیں جانتے کہ،مرغا صبح سویرے سب سے پہلے اٹھتا ہے، بانگ بھی دیتا ہے اور شام کو کسی کڑاہی میں بھی سب سے پہلے چڑھتا ہے۔۔ اس لئے وہم چھوڑو اور آرام سے اٹھا کرو ۔۔۔ہمارے پیارے دوست فرماتے ہیں، دو لڑنے والوں کے درمیان صلح نہ کراسکو تو کم سے کم نیچے بیٹھ جایا کرو تاکہ،دوسرے لوگ بھی انجوائے کرسکیں۔۔لاہوری لڑکی نے اپنی فیصل آبادی سہیلی سے فون پر دوران بات چیت اچانک پوچھا۔۔ نی تیرے بندے دی لت دا کی حال آ۔۔آگے سے جواب آیا۔۔۔ اڑئیے کی دساں لت چنگی پلی ٹھیک ہوگئی سی – بندہ کم تے نئیں جاندہ سی میں فیر پن دتی۔۔لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی صاحب اپنی کتاب میں کسی جگہ لکھتے ہیں کہ۔۔جھنگ کے ایک گاؤں میں یہ دستور ہے کہ کوئی بوڑھا مرجائے تو اس کے لواحقین پوری برادری کو چالیس دن تک مرغے کھلاتے ہیں ، اگر کوئی جوان موت ہوجائے تو چہلم تک دال ہی دال کھلائی جاتی ہے ۔۔سنا ہے وہاں کسی بڈھے کو زکام بھی ہوجائے تو گاؤں کے سارے مرغے سہمے سہمے پھرتے ہیں، اذان دینی چھوڑ دیتے ہیں۔۔
چین کے سائنس دان دن رات چاند سے ہیلیم گیس لانے کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔۔ توانائی کے حصول کے لیے وہ سورج کی طرز پر زمین میں ایک محدود اور کنٹرولڈفیوژن ری ایکٹر بنانا چاہتے ہیں ۔۔ جس کے لیے ہیلیم گیس درکار ہے جو زمین سے قریب صرف چاند پر وافر مقدار میں موجود ہے۔۔ جس دن یہ لوگ ہیلیم گیس لانے میں کامیاب ہو گئے اسی دن چین ہمیشہ کے لیے پیٹرول اور گیس کی محتاجی سے آزاد ہو جائے گا ۔۔بلب سے جہاز تک ہر چیز فیوژن توانائی سے چلے گی ۔۔دوسری طرف جاپان کے سائنس دان چاند کے خط استوا پر سولر پینل کی 250 میل لمبی بیلٹ لگانے جا رہے ہیں جو شمسی توانائی کو بجلی میں تبدیل کرے گی۔۔یہ بجلی لیزر لائٹ کی طرح ایک شعاع کی صورت میں زمین پر بھیجی جائے گی ۔۔ یہ بیلٹ ’’ لونر رنگ ‘‘کہلائے گی ۔۔یہ بیلٹ جاپان کو روزانہ تیرہ ہزار ٹیرا واٹ بجلی مہیا کرے گی جو امریکہ جیسے تین ملک چلانے کے لیے کافی ہو گی۔۔ماحولیاتی آلودگی سے پاک یہ بجلی سال کے بارہ مہینے دستیاب ہو گی ۔۔آپ یہ سن کر حیران ہو جائیں گے کہ پاکستان ان دونوں ممالک سے آگے جا رہا ہے۔۔آپ نے سنا ہوگا، بجلی کے وفاقی وزیر نے پچھلے دنوں بیان دیا تھا کہ دوہزار بیس تک بجلی کی ضروریات کو پورا کر لیں گے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے بنگالی بابوؤں کی ایک خصوصی فورس تیار کی ہے جو اگلے چند مہینوں میں جنات کے ایک قبیلے پر قابو پا لیں گے ۔۔جنات کے مسخر ہوتے ہی وہ جنات کو حکم دیں گے کہ پاکستان کی بجلی فوراً پوری کریں ۔۔پھر آپ دیکھیں گے کہ پلک چھپکنے میں پورا پاکستان روشن ہو جائے گا ۔۔
ایک سیاسی لیڈر کسی گاؤں میں گیا، گاؤں والوں نے خوب آؤبھگت کی، لیڈر نے کہا۔۔آپ کا جو بھی مسئلہ ہو مجھے بتائیں۔۔گاؤں کے معصوم لوگوں نے کہا۔۔ہمارے دو مسائل ہیں، ایک تو یہ کہ ہمارے گاؤں میں ایک بھی ڈاکٹر نہیں ہے۔۔لیڈر جی مسکرائے،انہوں نے فٹافٹ واسکٹ کی جیب سے اپنا موبائل فون نکالا، کسی سے بات کی اور گاؤں والوں سے کہا، آپ کا یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے، ہماری بات ہوگئی ہے اوپر، اگلے ہفتے ہی ڈاکٹر آپ کے گاؤں میں آجائے گا۔۔گاؤں والوں نے لیڈر جی کودیکھا،کہا کچھ نہیں۔۔ لیڈرجی نے پھر کہا۔۔۔آپ مجھے اپنا دوسرا مسئلہ بتائیں۔۔گاؤں والوں نے دھیرے سے کہا۔۔ ہمارا دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس گاؤں میں کسی موبائل فون کا نیٹ ورک نہیں ہے۔۔
اب حالات حاضرہ پر باباجی کی کچھ باتیں ہوجائیں۔۔باباجی حالات حاضرہ کو ہمیشہ حالات ’’ہاجرہ‘‘ کہتے ہیں۔۔ایران اور امریکا کی کشیدگی کے حوالے سے ہم نے باباجی سے ایک بار پوچھا تھا کہ۔۔باباجی جب ایران نے ہماری فوجی بیس پر میزائل حملہ کیا ہے کیا ہمارا میزائل ڈیفنس سسٹم خراب تھا۔؟؟باباجی ہمارا سوال سن کر مسکرائے اور کہنے لگے۔۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ۔۔میزائل ڈیفنس سسٹم ٹھیک تھا مگر کسی بے غیرت نے اس کا پلگ نکال کر وہاں موبائل کا چارجر لگایا ہوا تھا۔۔۔حکومت نے ماں بننے پر خواتین ورکرز کو چھ ماہ اور شوہر کو تین ماہ کی چھٹی دینے کا اعلان کیا ہے۔۔ باباجی نے بہت ہی شاندار اور معصومانہ سوال پوچھا ہے۔۔وہ ہم سے پوچھ رہے تھے کہ۔۔ اگر جڑواں بچے ہوجائیں تو کیا چھٹیاں ڈبل ہوجائیں گی؟؟وزیراعظم کی کراچی میں تازہ تقریر کے بعد میڈیکل اسٹورز پر نئی ڈیمانڈ سامنے آئی ہے۔۔ہر گاہک اسٹور والے سے پوچھ رہا ہے جناب آپ کے پاس حوروں والا ٹیکا ہے؟ باباجی فرماتے ہیں کہ اپنی بیوی کے سامنے دوسری عورت کی تعریف کرنا ایساہی ہے جیسے پٹرول پمپ پر کھڑے ہوکر سگریٹ پینا۔۔کرونا وائرس کے حوالے سے جب ہم نے باباجی کے ’’ویچار‘‘ جاننے کی کوشش کی تو باباجی نے فرمایا۔۔ کرونا وائرس سے دنیا کوکوئی خطرہ نہیں۔۔وجہ پوچھی تو کہنے لگے۔۔یہ وائرس اپنی موت آپ مرجائے گا، کیوں کہ یہ وائرس ، میڈان چائنا ہے۔۔
اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پروا کرنے والے ڈھونڈیئے، استعمال کرنے والے تو آپ کو خود ہی ڈھونڈ لیتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔