تحریر: خرم علی عمران۔۔
وائرس ایک ایسی مخلوق ہے جس کا شمار بیک وقت جاندار اور بے جان اشیا میں کیا جاتا ہے کہ اس میں کچھ خصوصیات جانداروں والی اور کچھ خصوصیات بے جانوں والی پائی جاتی ہیں۔ گویا یہ ایسی مخلوق ہے جو زندگی اور موت کی سرحد پر تخلیق کی گئی ہے۔ مختلف اقسام کے وائرس کی خورد بینی تصاویر کوبرا کر کے دیکھنے سے ایک تاثر ہر فرد کے ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جیسے یہ کوئی مشینی سی شئے ہے۔ اور اسکی بناوٹ کسی پرزے یا آلے سے مشابہ ہے۔ انہی وائرسوں کی دنیا سے ایک نووارد وائرس، بلکہ نووارد نہیں دوبارہ زیادہ ہلاکت خیز شکل میں کافی عرصے بعد وارد کرونا وائرس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا رکھا ہے اور اپنی ہلاکت خیزی اور پھیلاؤ کی سرعت سے دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ایک پریشان کن اور ہیجانی کیفیت پیدا کردی ہے۔ کیونکہ ان سطور کے لکھے جانے تک اس وائرس کا کوئی باقاعدہ مستند علاج دریافت نہیں ہو پایا ہے اس لئے اس کا ڈر اور خوف لوگوں میں اور زیادہ پھیلا ہوا ہے۔ گو کہ کچھ امید افزا باتیں بھی سامنے آئی ہیں جیسے کہ اگر گرمی زیادہ ہوجائے تو یہ وائرس مر جاتا ہے یا صفائی ستھرائی کے زریں اصولوں کو اپنا کر اس سے بچا جاسکتا ہے اور مسلمانوں کو تو ایک یہ بھی ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ ہر وقت باوضو رہنے کی ترتیب اپنانے سے اس وائرس سے بچا جاسکتا ہے۔اس وائرس کی وجہ سے دنیا کو پیش آنے والے طبی معاملات اور خطرات جو ہیں سو اپنی جگہ ہیں اوراس سے نپٹنے کے لئے جو بھی کوششیں اور تدابیر اختیار کی جارہی ہیں وہ سب بھی اپنی جگہ ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک عجیب نیا بیانیہ اور نقطہء نظر بھی سامنے آرہا ہے اور ان سطور کے چھپنے تک تو شاید یہ بات اور بھی زیادہ کھل کر سامنے آ چکی ہو کہ یہ سارا معاملہ مشرقی و مغربی معاشی بالا دستی کی جنگ سے جڑا ہوا ہے اور اس میں اس وائرس کو بطور حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے۔
اس نقطہء نظر کے حاملین اورحامی اپنا موقف کچھ یوں بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ کورونا مشرق اور مغرب کی نمائندگی کرنے والےبڑے ملکوں کی تجارتی رقابت کا ہتھیار اور ایک دوسرے کی عالی مارکیٹ خراب کرنے کی جنگ ہے، اور دنیا میں عالمی معیشت کے حوالے سے بننے والی نئی مشرقی صف بندیاں جن کا مرکز چین ہے اور جن کی وجہ سے گزشتہ کئی سو سالوں کے بعد مغرب کی عالمی معاشی اور سیاسی بالادستی ایک طرح سے خطرے میں پڑتی نظر انے کا خدشہ لاحق ہوتا جارہا ہے اس سے نپٹنے کے لئے یہ حیاتیاتی ہتھیار استعمال کیا گیا ہے اور حیرت انگیز طور پر اس سے متاثر ہونے والے ممالک میں چین کے علاوہ ایسے ممالک کی تعداد زیادہ ہے جو نئی عالمی معاشی صف بندیوں میں مشرقی بلاک کے ساتھ ہیں یا ہونے جارہی ہیں اور ان میں جنوبی کوریا اور دیگر کئی مشرقی معیشتوں کے ساتھ ساتھ مغرب میں اٹلی،اسپین اور اسکینڈے نیویا کے ممالک زیادہ متاثر ہوئے ہیں، جومغربی اور امریکی سامراجی ایجنڈے کا حصہ نہیں تھے۔ اگرچہ امریکہ اور اس کے بعض یورپی اتحادیوں کی معیشت کو بھی بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اب تک عالمی معیشت کو ہونے والے نقصان کا ایک محتاط تخمینہ 3.5ٹریلین ڈالرزلگایا گیا ہے، جس میں امریکہ اور اس کے قریبی حواریوں کا ابتک کا حصہ 0.7ٹریلین ڈالرز سے بھی کم ہے۔ چین کی معیشت کو 1.5ٹریلین ڈالرز کا نقصان ہوا ہے، جو سب سے زیادہ ہے۔ باقی 1.3ٹریلین ڈالرز کا نقصان ان ممالک کا ہوا ہے، جو نئی عالمی صف بندی میں اپنی سابقہ پوزیشن سے شفٹ ہورہے تھے۔
بلکل اسی طرح کے الزامات مغربی اطراف سے چین پر بھی عائد کئے جارہے ہیں اور معاشی اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کو بیان کرتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کرونا وائرس سے پیدا شدہ عالمی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نےادائیگیوں کے ضمن میں اربوں ڈالرز بچالئے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ایک طبقے کا یہ بھی خیال ہے کہ اس عالمی وبا کا باعث بننے والا وائرس کیونکہ نیا نہیں ہے اور پہلے بھی ظہور پذیر ہوتا رہا ہے لیکن اب اس وائرس کی ہلاکت خیزی کو بہت زیادہ بڑھا کر اسے پھیلایا گیا ہے اور اب اس کی دوا یا ویکسین بن جانے کا کچھ دنوں میں اعلان کرکے اربوں کھربوں روپے بنائے جائیں گے۔ یہ اور اسی نوعیت کے کچھ اور بھی خیالات اور الزامات کوئی فرضی باتیں یا قصہ کہانی نہیں ہیں اس وقت عالمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مختلف انداز سے بیان کئے جارہے ہیں اور ملکی و بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں ان کا چرچا ہے اور ان سب باتوں پر لکھا جارہا ہے۔
اب یہ سب باتیں یا انکا کوئی حصہ سچ ہے یا نہیں ہے اورموجودہ کرونا وائرس کوئی حیاتیاتی ہتھیار ہے یا پھر ایک قدرتی آفت،اس سب کا فیصلہ تو وقت گزرنے کے ساتھ ہو ہی جائے گا لیکن اپنے وطن کے لحاظ سے ہمیں اس سے نپٹنے کے لئے ہر طریقہ،ہر ترکیب وترتیب استعمال کرنا ہوگی، جب انتہائی ترقی یافتہ ممالک بھی کلی طور پر اس عالمی وبا اور ہلاکت خیز وائرس سے پوری طرح نپٹنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں تو یہاں اس سرزمین پاک میں جہاں ویسے ہی صحت و صفائی کے معاملات تباہ کن اور برباد شدہ ہیں خاص طور پر غریب اور متوسط طبقے کے لوگ تو ادھر ادھر کی بیماریوں کا علاج کرانے میں ہی ہلکان اور ادھ مرے ہوجاتے ہیں اور جہاں اسپتال میں جگہ نہ ملنے پرسڑکوں پربچوں کی پیدائش عمل میں آجاتی ہے اور جہاں ایک ایک بستر پر کئی کئی مریض لیٹے نظر آتے ہیں اور جہاں جہالت اور کرپشن کی عید بہاریں ہر طرف رقصاں ہیں، وہاں اس طرح کی وبا کا پھیلاؤ کتنا خطرناک ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ عوام الناس کے پاس احتیاط،پرہیز اور دعا کے علاوہ فی الحال کوئی دفاع اس بیماری کے خلاف موجود نہیں ہے اور یہ سرکار، طبقہ بالا اور خواص کی کلی ذمہ داری اور فریضہ ہے کہ وہ اس سے ہر سطح پر نپٹنے کے لئے تمام سہولیات بہم پہنچانے میں کوئی دقیقہ فرگزاشت نہ رکھیں اور کوئی کسر نہ چھوڑیں کیونکہ اس وائرس کو عوام و خواص کی کوئی تمیز نہیں ہے اور نہ ہی اسکا کوئی دین ایمان ہے۔ یہ اثرانداز ہوگا تو یہ نہیں دیکھے گا کہ نشانہ بننے والا امیر ہے یا غریب،عوام میں سے ہے یا خواص میں سے،مسلم ہے یا غیر مسلم۔ اور پھر اگر خواص و طبقہ بالا والے اس مصیبت،آفت یا آزمائش سے نپٹنے کے لئے اپنی تمام تر صلاحتیں اور وسائل بروئے کار نہیں لائیں گے اور کوتاہی یا روایتی مٹی پاؤ پالیسی اختیار کرنے کی کوشش کریں گے تو خود بھی لپیٹ میں آنے کے اپنے خطرے کو اور بڑھا لیں گے اور یہ بات تو انہیں پتہ ہی ہوگی یہ قدرت نے یہ ایسی بیماری نازل کی ہے کہ جس میں خاکم بدہن مبتلا ہوجانے کے بعد ہمارے خواص اپنا علاج کرانے کے لئے باہر بھی تو نہیں جاسکیں گے۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ حکیم و کریم سب کو اس وبا سے حفظ و امان عطا فرمائے اور سب پر اپنا فضل عظیم فرمائے۔(خرم علی عمران )۔۔orona