تحریر: سید بدرسعید۔۔
پاکستان ان تیسرے درجے کے ممالک میں شامل ہے جو دنیا کے لیے تجربہ گاہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔۔
المیہ یہ ہے کہ یہاں انسانی حقوق کا بھی خیال نہیں رکھا جاتا ۔ تجربہ گاہ کی بھینٹ چڑھنے والوں سے حقائق چھپائے جاتے ہیں ۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا ، کم از کم ایسے حوالے سے نہیں ہوتا جہاں بات آپ کی زندگی پر آ رہی ہو ۔
دنیا بھر میں ممالک اپنے شہریوں کے لیے کورونا ویکسین خرید رہے ہیں ،ایڈوانس بکنگ کروائی جا رہی ہے ۔ کیا آپ نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا کہ آپ نے ایسا کونسا تیر مار لیا کہ پاکستان کو یہ ویکسین مفت دی جا رہی ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستانیوں کو لگائی جانے والی زیادہ تر ویکسین تجربہ کے عمل کا حصہ ہے اور لوگوں پر اس کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں ۔ خاص طور ہر جہاں آپ کو ویکسین لگوانے کے 2 ، 3 ہزار بھی دیے جاتے ہیں وہ سو فیصد ایک تجرباتی عمل ہے ۔
میں ایسے ادارے کو بھی جانتا ہوں جہاں ورکرز کو ویکسین لگانے کے پیسے بھی ملے لیکن بہت سے ورکرز یہ نہیں جانتے تھے کہ انہیں ویکسین کی بجائے محض پانی کا ٹیکہ لگایا گیا کیونکہ “کمپنی” نے جانچنا تھا کہ ویکسین اور پانی کے نتائج کیا رہے ۔یہ دو تین ہزار اسی لیے دیے جاتے ہیں کہ ان کے لالچ میں آپ اگلی ڈوز لگوائیں تو ساتھ نتائج کا گراف بھی بن جائے ۔
میڈیکل سائنس کی کامیابی کے لیے خود کو تجربے کے لیے پیش کرنا بہت بڑی نیکی ہے لیکن کم از کم جس پر تجربہ ہو رہا ہو اسے اس کا علم تو ہونا چاہیے ۔ یہ تجربات زیادہ تر صحافیوں پر کیے گئے لیکن اکثر صحافی یہی سمجھتے رہے کہ میڈیا پرسن ہونے کی وجہ سے انہیں سہولت کے ساتھ جلد ویکسین لگا دی گئی ہے ۔
میں بہت سے لوگوں کو جانتا یوں جنہیں پہلی یا دوسری ڈوز لگنے کے بعد کورونا ہوا۔ میرے والد مرحوم جب فوت ہوئے تب انہیں دوسری ڈوز لگنی تھی ۔ ہمارے دوست ڈی جی سوشل سکیورٹی کو کورونا ہوا تب انہیں دو ڈوز لگ چکی تھیں ۔ جب اس بارے ڈاکٹرز سے پوچھا گیا تو جواب ملتا ہے کہ پہلی ڈوز کے ایک ماہ بعد اینٹی وائرس بنتا ہے ، کچھ کہتے ہیں دوسری ڈوز کے ایک ماہ بعد اینٹی وائرس بنتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جنہیں آپ ویکسین لگا رہے ہیں کیا انہیں کوئی بتاتا ہے کہ اس ویکسین کا اثر کتنے عرصہ بعد شروع ہو گا اور اس عرصہ میں کیا احتیاط کرنی ہے ؟ کیا یہ دیکھا جاتا ہے کہ ویکسینیشن کے بعد خون گاڑھا ہونے لگتا ہے اور یہ دل کے مریضوں کے لیے کتنا مفید ہو سکتا ہے ؟؟؟ بدقسمتی سے ویکسین لگوانے والوں کی نہ تو میڈیکل ہسٹری لی جاتی ہے ، نہ اس بنیاد پر ویکسین لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ ہوتا ہے ، نہ ویکسین لگوانے والے کو کسی قسم کی بریفنگ دی جاتی ہے ۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ویکسین پر تجربات ہو رہے ہیں اور وہ بھی جسے لگائی جاتی ہے اس کے علم میں لائے بنا یعنی میڈیکل سائنس کے مطابق سنگین جرم ۔ بہت سے لوگ ویکسین لگوانے کے بعد کورونا کا شکار ہوئے اور بہت سے ویکسینیشن زدہ لوگ فوت ہوئے ۔ اگر آپ ویکسین لگوانے جا رہے ہیں تو خدارا اپنی میڈیکل ہسٹری ضرور ڈسکس کریں اور ویکسین کے بعد کی احتیاطی تدابیر کا ضرور پوچھیں ۔ کم از کم لاعلمی میں تجربات کی بھینٹ مت چڑھیں۔آپ دنیا کے لیے ابھی اتنے اہم نہیں ہوئے کہ جس ویکسین کے لیے بڑے ممالک باقاعدہ بکنگ کروا کر خرید رہے ہیں وہ آپ کو مفت بھیج دی جائے (سید بدر سعید)۔۔