تحریر:شکیل نائچ
پاکستان میں اس سال فروری سے کرونا وائرس کے حوالے سے خبریں آنا شروع ہوئیں اور مارچ سے لاک ڈاؤن بھی شروع ہوا ہم بھی ذمہ دار شہریوں کی طرح لاک ڈاؤن میں گھروں تک محدود رہے اگر باہر جانا ہوتا تو سماجی فاصلہ رکھتےاپنے ہاتھ دھو بار بار دھوتے لیکن دو جون کو ہمارے قابل احترام شبیر چوہدری کے فرزند احسن شبیر کے ساتھ شام کے وقت گلستان جوہر جانا وہاں ماسک بھی نہیں پہنا ہو تھا جوہر میں کچھ دوستوں نے ہاتھ بھی ملایا اگلی صبح بخار اور کھانسی ہوئی تو انڈس ہسپتال میں سینے کا ایکسرے کرایا اور آدھے گھنٹے میں رپورٹ ملی کہ کرونا نہیں ہے لیکن بخار اور کھانسی نہ اتر سکے میری بیوی نے میڈیکل کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے انہوں نے مجھے سیرپ اور گولیاں دیں پھر بھی اگلے روز ڈفینس میں واقع علاج ہسپتال سے ناک کے ذریعہ کرونا کا ٹیسٹ کرایا دو روز میں بتایا گیا کہ کرونا نہیں ہے میں مطمئن ہوگیا لیکن میرے علاج کے دوران میری اہلیہ کی طبیعت خراب ہوئی اور پھر طبیعت خراب ہوتی گئی آغا خان ،انڈس ،نیشنل میڈیکل سینٹر،جناح ہسپتال میں ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن بخار تو ٹوٹ گیا لیکن کھانسی نہ ٹوٹ سکی بلاآخر 12 جون کو جناح ہسپتال کے کرونا وارڈ میں اہلیہ کو داخل کرایا اور کرونا کا ٹیسٹ بھی لیا ہماری ملاقات مکمل بند تھی لیکن صرف موبائل پر بات ہوتی تھی بیگم بار بار کہتیں کہ ان کی طبیعت خراب ہورہی ہے اب ان کی طبیعت کی فکر کھائے جارہی تھی تین دن بعد 14 جون اتوار کے دن میری اہلیہ اپنی مرضی سے(لا ما) ہسپتال کو چھوڑ کر وہیل چیئر پر وارڈ سے باہر آگئی اب اتوار کا دن تھا پہلے سرسید ہسپتال گئے مگر انہوں نے اہلیہ کا علاج کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ بخار اور کھانسی کے مریضوں کا حکومت سندھ کے کہنے پر علاج نہیں کررہے پھر ہم چینوٹ ہسپتال گئے مگر وہاں سے بھی یہی جواب ملا بلا آخر انڈس ہسپتال گئے انہوں نے ایمرجنسی وارڈ میں رکھا مگر منگل 16جون کو میری اہلیہ کو ایمرجنسی سے نکل آنے کا کہہ کر ہسپتال سے فارغ کردیا اب میں نے اہلیہ کو آغا خان اور لیاقت نیشنل ہسپتالوں میں لے گیا لیکن انہوں نے داخل نہیں کیا بلا آخر ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال اوجھا کیمپس لے گئے ایک مہربان نے ذاتی کوشش کرکے ڈاؤ ہسپتال میں ایمرجنسی وارڈ میں داخل کرادیا اور وہ 18جون تک ایمرجنسی وارڈ میں داخل رہیں اس دوران جناح ہسپتال نے رپورٹ دی کہ میری اہلیہ کو کرونا نہیں ہے پھر اگلے روز ڈاؤ ہسپتال کی بھی رپورٹ آئی کہ میری اہلیہ کو کرونا نہیں ہے انہیں کھانسی کی وجہ سے پھیپھڑوں میں سوجن ہوئی ہے اس لئے انہیں آکسیجن دیا جائے 19 جون کو میری اہلیہ کو پہلے آئسولیشن وارڈ منتقل کیا گیا اور اگلے روز 20جون کو میڈیسن وارڈ میں منتقل کیا گیا اور آج اتوار 21 جون کو میری اہلیہ کو کرونا نہ ہونے پر اسپتال سے فارغ کرکے گھر منتقل کیا گیا الحمد للّٰہ اب وہ روبصحت ہیں میرا ان بیس روز میں جو تجربہ ہواکہ جن کرونا کے مریضوں کے ٹیسٹ لیے جارہے ہیں ان کے نتائج ایک ایک ہفتہ کے بعد کیوں دئیے جارہے ہیں؟جناح ہسپتال،سول ہسپتال،لیاقت نیشنل ہسپتال میں پراپر علاج کے بجائے صرف بیہوش کرنے کے انجیکشن لگائے جارہے ہیں سول ہسپتال میں تو اب ڈاکٹر ٹراما سینٹر میں کرونا کے مریضوں کو دیکھنے ہی نہیں جاتے انڈس اور ڈاؤ ہسپتالوں میں مریضوں کی آغا خان سے بھی بہتر علاج کی سہولیات دی جارہی ہیں اگر دوران علاج مریض انتقال کر جارہا ہے تو اس کا جسد خاکی ورثاء کو نہیں دی جارہی یہ ناانصافی ہے میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے مخاطب ہوں کہ سندھ کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں کرونا کا کوئی علاج نہیں ہورہا اور مریض کو بیہوش کرنے کے ٹیکے لگا کر جان چھڑائی جارہی ہے پھر انتقال کرجانے والے مریضوں کے ورثاء کو جسد خاکی نہ دے کر ذلیل خوار کیا جاتا ہے ہسپتالوں میں ایجنٹ گھوم رہے ہیں کہ پلازمہ فروخت کیلئے موجود ہے کیا مراد علی شاہ کو ان ساری باتوں کا علم ہے؟یا انہیں اندھیرے میں رکھا گیا ہے؟دونوں صورتوں میں وزیراعلیٰ سندھ آنکھیں کھولیں ورنہ لوگوں کی بددعائیں اور آہیں ان کے اقتدار کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیں گے۔۔(شکیل نائچ)۔۔