aik tabah saath | Imran Junior

کورونا اور ۔۔رمضان۔۔

دوستو، کورونا وائرس تو لگتا ہے رمضان المبارک میں بھی جان چھوڑنے والا نہیں۔۔ کل سے ماہ صیام کی رونقیں عروج پر ہوں گی۔۔افطار اور سحر کے علاوہ سارا دن روزے دار بار بار گھڑیوں کی جانب دیکھ رہے ہوں گے۔۔ہم بچپن میں اکثر اپنے ٹیچرز سے یہی سوال کیا کرتے تھے کہ ۔۔ رمضان کو ’’مبارک‘‘ کیوں کہتے ہیں۔۔ جس پر ایک ہی جواب ملتا تھا کہ اس مہینے میں بے پناہ برکتیں، رحمتیں، نعمتیں ملتی ہیں، اسی لئے یہ مہینہ سب کے لئے ’’مبارک ‘‘ہوتا ہے۔۔لیکن جیسے جیسے بڑے ہوتے ہوگئے، ہم پہ رمضان کو مبارک کہنے کی بہت سی تشریحات سامنے آنے لگیں۔۔آج کل کے دور میں رمضان غریبوں کے لئے ’’مبارک‘‘ نہیں رہا۔۔ یہ ہم نہیں ہمارے پیارے دوست کہتے ہیں۔۔وہ مزید فرماتے ہیں کہ ۔۔ رمضان کا جوش و خروش تو صرف بچپن میں ہوا کرتا تھا اب اس کی جگہ بناوٹ نے لے لی ہے شاید۔۔لیکن اعتراف کرنے سے ڈرتے ہیں۔۔ہم اپنے لفظوں کو سنوارتے ہیں کہ وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا اور پھر، رمضان آ گئے۔۔ پھر سب مل جل کر رمضان ’’گزارنے‘‘ میں لگ جاتے ہیں۔۔کوئی یہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں سوچتا کہ جو رمضان گزرگئے، کیا ہم ان کا حق اس طرح ادا کرپائے جیسا کہ اس کا حق تھا۔۔

رمضان وہ واحد مہینہ ہے جس میں ہمارے ہر عمل کی ذمے داری ہم پر خود ہی عائد ہوتی ہے،کیونکہ شیاطین قید کردیئے جاتے ہیں۔۔ورنہ گیارہ ماہ تو ہم شیطان پر لعن طعن کرکے کام چلالیتے ہیں۔۔اور ایسے ایسے کام کرجاتے ہیں کہ ایک بارتو شیطان بھی کہنے پر مجبورہوگیا کہ، یار جو کام تم نے کیا ہے وہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔ رمضان کا مہینہ تھا، ایک سْنی مولوی مرزاغالب سے ملنے آئے، عصر کا وقت تھا۔ مرزا نے خدمتگار سے پانی مانگا۔ مولوی صاحب نے تعجب سے کہا۔ ’’کیا جناب کا روزہ نہیں ہے؟‘‘۔۔ مرزا نے کہا۔۔۔سْنی مسلمان ہوں، چار گھڑی دن رہے تو روزہ کھول دیتا ہوں۔۔مرزا غالب نے ایک بار رمضان المبارک میں اپنے ایک دوست کو روزوں کے حوالے سے خط میں لکھا تھا۔۔ دھوپ بہت تیز ہے، روزہ رکھتا ہوں مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں، کبھی پانی پی لیا، کبھی حقہ پی لیا، کبھی کوئی ٹکڑا روٹی کا بھی کھا لیا، یہاں کے لوگ عجیب فہم رکھتے ہیں، میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ تْو روزہ نہیں رکھتا، یہ نہیں سمجھتے کہ روزہ نہ رکھنا اور چیز ہے اور روزہ بہلانا اور چیز ہے۔۔ہمیں اپنے ایک دوست پر شک ہوا کہ اس کا روزہ نہیں، ہم نے اسے کہا، قسم کھاؤ، تمہارا روزہ ہے۔ ۔۔دوست ہمیں دیکھ کر مسکرایا اور بڑی معصومیت سے کہنے لگا۔۔ واہ، قسم کھا کر میں اپنا روزہ توڑ لوں۔۔ایک مولوی صاحب کسی گاؤں کی مسجد میں درس دے رہے تھے۔۔کہنے لگا، روزوں کے بدلے جنت میں آپ کو اپنی ہی بیوی ملے گی۔ یہ سن کر پاس بیٹھے دیہاتی نے اپنے ساتھ والے کو کہنی ماری اور سرگوشی کی۔۔ پتر ہور رکھ روزے۔۔

کورونا کے حوالے سے مختلف ’’تھیوریاں‘‘ آئے روز سامنے آتی رہتی ہیں۔۔ اس وائرس کے حوالے سے کیا کیا کہانیاں مارکیٹ میں آچکیں ،آپ کے علم میں ہوں گی۔۔اب ایک نئی کہانی سن لیجئے۔۔ کورونا کا نام اتفاق نہیں خفیہ انتخاب ہے، ہمیں جن صاحب نے یہ ’’تھیوری‘‘ یا کہانی بھیجی ان کا دعویٰ ہے کہ یہ معلومات پڑھ کر آپ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔وہم اور خوف سے دنیا میں پھیلائے گئے باطل نظریات کو ’’کرونا وائرس‘‘ کہا جاتا ہے۔۔ کیا آپ جانتے ہیں لفظ ’’کرونا‘‘ یہودیوں کی مذہبی کتاب ’’تلمود‘‘ میں بھی بڑے معنی خیز انداز میں موجود ہے.۔۔ کورونا کاعبرانی زبان میں مطلب ہے۔۔ پکارنا یا آواز لگانا۔۔اب سوال یہ ہے کسے پکارنا؟؟ اس کا جواب ہے یہودیوں کے مسیحا کو۔۔ آرتھوڈوکس یہودیت کے مطابق مسیحا جسے انگلش میں Moshiach یا Hashem کہتے ہیں، دجال نہیں بلکہ ایک ایسا لبرل یہودی النسل رہنما ہوگا جو مسجد اقصی کو شہید کرکے اسکی جگہ دجال کے لئے ’’ہیکل سلیمانی‘‘تعمیر کرے گا۔ یہودیت کے مطابق جب وہ مسیحا آئے گا تو اس وقت سب لوگ گھروں میں چھپے ہوئے ہوں گے، اسے پکار رہے ہوں گے یعنی ہر کوئی اسے ان الفاظ سے پکار رہا ہوگا کہ کرونا ،کرونا، کرونا۔۔ یعنی اے ہمارے مسیحا آجاؤ، آجاؤ، اب آجاؤ۔۔اب اس نئے کرونا وائرس کو (COVID-19) کا نام بھی یہودیوں نے دیا ہے اور آپ اسے بھی ہرگز اتفاق نہ سمجھیں۔۔یہ لفظ یہودی مذہبی کتاب ’’تلمود‘‘ کے پانچویں باب کے پہلے پیراگراف میں کچھ اس طرح موجود ہے، اس کے معنی ہیںکہ۔۔کسی شخص کو اس وقت تک نماز کے لئے نہیں اٹھنا چاہیئے جب تک کہ اس کو کووڈ COVID نہ ہو۔۔۔یہ ’’کووڈ‘‘ کیا ہے؟ یہودی علمااس کی تشریح کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ۔۔اس کا مطلب ہے عاجزی، یعنی آپ کا اس بات پر ایمان ہو کہ ہم کچھ بھی نہیں ہیں اور ہاشم (مسیحا) کے بغیر ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے اس لیے ہمیں اس کو کووڈ COVID کے ساتھ پکارنا ہوگا، عاجزی سے اسے آواز دینی ہوگی۔۔آوازکیا دینا ہوگی؟؟ اس کا جواب ہے۔۔ 19۔۔اب یہ 19 کیا ہے؟ یہاں 19 کا مطلب تلمود میں موجود یہودی نماز کا انیسواں کلمہ ہے۔۔یعنی ہمیں کرونا کے ساتھ انیسواں کلمہ دہراتے رہنا ہوگا،جب ہی ہمارا مسیحا آکر مسجد اقصی گرا کر وہاں دجال کے لیے ہیکل سلیمانی تعمیر کرے گا۔اب آپ کو سمجھ آگئی ہوگی کہ صیہونی اپنے پلانز کو کس طرح خفیہ ذو معنی الفاظ بناکر پیش کرتے ہیں۔۔اب آپ اسرائیلی وزیر صحت اور وزیر دفاع کے بیانات ذہن میں لاکر ان پر غور کریں جس میں ایک کہتا ہے کہ ہمیں کرونا سے کوئی پریشانی نہیں اور دوسرا کہتا ہے کہ ہمیں نجات دلانے والا مسیحا جلد آنے والا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کے چیف ربی نے بھی اعلان کیا ہے کہ مسیحا اسی سال آئے گا پچھلے دنوں آپ نے ٹویٹر پر اسکا ٹرینڈ بھی دیکھا ہوگا ۔۔جی ہاں آپ سوفیصد ٹھیک سمجھ رہے ہیں ،آپ سب لوگوں کو گھروں میں قیدر کرواکے ہرجگہ کرونا،کرونا کرایا جارہا ہے۔۔یہ محض اتفاق نہیں ڈیجیٹل دور کے آغاز میں اس کرونا کے نام پر آپ کے لئے جو ویکسین تیار کی گئی ہے اس سے آپ کے دماغ سے حقیقی معبود کا خیال نکال کر آپ کو دجال کی پیروی پر آمادہ کیا جائے گا۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں