دوستو، ایک خبر کے مطابق ماہرین نے بتایا ہے کہ موٹاپے کا شکار افراد کے کورونا وائرس سے ہلاکت کے امکانات زیادہ ہیں اور ضروری نہیں کہ صرف زیادہ عمر کے افراد ہی کورونا سے متاثر ہو رہے ہیں۔ موٹاپے کا شکار کم عمر افراد بھی ہو سکتے ہیں۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فرانس، اٹلی، چین اور امریکا میں وبا سے متاثر ہونے والے افراد کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ موٹاپے کی وجہ سے کورونا وائرس متاثرین زیادہ خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ ماہرین نے بتایا ہے کہ موٹاپے اور کورونا وائرس کا قریبی تعلق ہے، موٹاپا سانس کی نالی میں انفیکشن کا خطرہ بڑھا دیتا ہے، قوت مدافعت میں تبدیلی لاتا ہے اور پھیپھڑوں میں سوزش کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو کورونا وائرس کے لیے آسانی پیدا کرتے ہیں۔
ایک طرف تو دنیا بھر میں لاک ڈاؤن لوگوں پر گراں گزر رہا ہے اور وہ دن گن گن کر کاٹ رہے ہیں لیکن آسٹریلوی شہریوں کی اکثریت نے ایک سروے میں اس حوالے سے ایسی بات کہہ دی ہے کہ سن کر آدمی حیران رہ جائے۔ این اے بی (NAB)کے زیر انتظام ہونے والے اس سروے میں آسٹریلوی شہریوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران زیادہ خوش رہ رہے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ لاک ڈاؤن ختم ہو۔لاک ڈاؤن پر خوشی کا اظہار کرنے والوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔سروے میں لوگوں سے سوال پوچھا گیا کہ وہ کس قدر چاہتے ہیں کہ زندگی کورونا وائرس سے پہلے جیسی ہو جائے؟ اس کے لیے لوگوں کو ایک سے دس کے درمیان اپنی خواہش کو بیان کرنے کو کہا گیا۔ صفر کا مطلب تھا کہ آپ لاک ڈاؤن کا بالکل بھی خاتمہ نہیں چاہتے اور اسی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور 10کا مطلب آپ مکمل پہلے والی زندگی چاہتے ہیں۔ حیران کن طور پر خواتین نے اوسطاً6.3اور مردوں نے 6.8پوائنٹس دیئے۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ سبھی کورونا وائرس سے پہلے والی زندگی مکمل واپس نہیں چاہتے۔ وہ کچھ قدغنیں ہٹانا چاہتے ہیں اور کچھ باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ مجموعی طور پر لوگوں کی اکثریت نے بتایا کہ لاک ڈاؤن کے دوران گھر سے کام کرتے ہوئے وہ زیادہ خوشی محسوس کر رہے ہیں اور وہ دوبارہ دفاتر میں نہیں جانا چاہتے۔
اس حوالے سے مزید بات کو آگے بڑھانے سے پہلے آپ احباب کو یہ واضح کرتے چلیں کہ اگر اس مرتبہ دسمبر کی آخری دنوں میں کسی نے ہم سے کہا کہ پتہ بھی نہیں چلا یہ سال کتنی جلدی گزر گیا تو یقین مانیں اس شخص پر ’’چپیڑیں‘‘ واجب ہوجائیں گی، اور ایسے شخص کا سوشل ڈسٹنسنگ کے ساتھ ساتھ سوشل بائیکاٹ بھی کردیاجائے گا۔۔کبھی آپ نوٹ کیجئے گا کہ کچھ لوگ مشکل ترین حالات میں بھی پرسکون رہتے ہیں ، ایسے لوگوں کو ٹھنڈے مزاج والا کہاجاتا ہے۔۔ہمیں تو حیرت ہوتی ہے کہ لیجنڈ سنگر نصرت فتح علی خان نے سانوں اک پل چین نہ آوے۔۔جس طرح اطمینان و سکون سے بیٹھ کر گیا تھا لگتا نہیں تھا کہ وہ بے چین ہیں۔۔کورونا کے حوالے سے بات کا آغاز ہوا تھا۔۔ کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے تو ہر کوئی نصیحت کررہا ہے لیکن کوئی آپ کو یہ نہیں بتارہا ہے کہ،کورونا کے ساتھ ساتھ خود کو بھی پھیلنے سے روکنا ہے۔۔ یعنی لاک ڈاؤن میں زیادہ ٹائم گھر میں گزررہا ہے تو کھانے پینے میں کم دلچسپی لی جائے،ورنہ کورونا پھیلے نہ پھیلے ،آپ ضرور’’پھیل ‘‘ جائیں گے۔۔ اور جو ایک بار پھیل جاتا ہے اس کا دوبارہ ’’سکڑنا‘‘ دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔دنیا کے مشکل کاموں میں سے ایک کام مچھر مارنے والی دو جلیبیوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے۔۔
وفاقی بجٹ کا اعلان ہوچکا۔۔ سرکاری ملازمین کے لیے کوئی خوشخبری نہیں تھی۔۔ ہم نے ایک سرکاری ملازم سے (جو اتفاق سے شاعر بھی ہیں ) وفاقی بجٹ کے حوالے سے رائے جاننا چاہی تو ہمارے ہر سوال کا جواب انہوں نے شاعری میں جواب دیا۔۔ہم نے پوچھا، سرکاری ملازمین کے لیے میڈیکل الاؤنس میں کوئی اضافہ نہیں کیاگیا۔۔وہ بولے۔۔ وہ سمجھتے ہیں بیمار کا حال اچھا ہے۔۔ ہم نے کہا،ہاؤس رینٹ بھی نہیں بڑھایا؟۔۔بولے ، تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر۔۔ ہم نے پھر سوال داغا، کنوینس الاؤنس بھی زیرو۔۔ شاعرصاحب کہنے لگے، چلیں تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ۔۔ ہم نے پھر کہا، ایڈہاک ریلیف کی بنیادی تنخواہ میں ایڈجسٹمنٹ بھی نہیں کی گئی۔۔وہ کہنے لگے۔۔گزر گیا جو زمانہ اسے بھلا دو۔۔یوٹیلیٹی الاؤنس بھی منظور نہ ہوسکا؟ وہ بولے، جااپنی حسرتوں پر آنسو بہاکر سوجا۔۔ہم نے پھر پوچھا، دس فیصد سیلری بھی نہیںبڑھی۔۔کہنے لگے، دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے۔۔ہم نے پھر چھیڑا اور کہا، پنشنرز کو بھی لفٹ نہیں کرائی گئی اس بار۔۔وہ بولے۔۔ جتنا دیا سرکارنے،اتنی تو میری اوقات نہ تھی۔۔
بجٹ کے حوالے سے ہی ایک جیالے نے ہمیں ایک گھسا پٹا لطیفہ سنایا۔۔کہنے لگے۔۔ایک پہلوان نے 10 سوکھے لیموں نچوڑ کر پورا ایک گلاس جوس نکال لیا۔۔لوگ حیرت سے اسے دیکھتے رہے۔۔اس کے بعد اس نے لوگوں کو چیلنج کیا کہ کوئی ہے جو 20 لیموں نچوڑ کر بھی اتنا جوس نکال سکے جتنا اس نے 10 لیموں سے نکالا ہے۔۔لوگ خاموش رہے۔۔کوئی آگے نہیں بڑھا۔۔سوائے ایک آدمی کے۔۔اس آدمی نے پہلوان سے کہا میں تمہارا چیلنج قبول کرتا ہوں۔۔میں 20 لیموں سے نہیں۔۔بلکہ صرف 10 لیموں سے ہی اتنا جوس نکالوں گا۔۔اور ہاں لیموں بھی وہ جس سے تم پہلے ہی نچوڑ کے سارا رس نکال چکے ہو۔۔سارا مجمع اسے پاگل سمجھنے لگا۔۔پہلوان بھی اسے حیرت سے دیکھنے لگا۔۔اور لوگوں کو نہایت حیرت اس وقت ہوئی جب اس شخص نے یہ معجزہ کر کے دکھا دیا۔۔ان سوکھے ہوئے 10 لیموں سے ایک گلاس رس اور نکال کے دکھایا۔۔پہلوان کا منہ کُھلے کا کُھلا رہ گیا۔۔اس نے حیرت سے پوچھا ۔۔بھائی! تم بھی پہلوان ہو؟۔۔وہ بولا ۔۔نہیں، میں حفیظ شیخ ہوں۔۔ویسے جدید تحقیق کے مطابق، بچے اتنا شور نہیںکرتے جتنا انہیں چپ کراتے ہوئے انکی ماں کرتی ہے۔۔تاریخ گواہ ہے کہ الارم کی گھنٹی بجنے پر سب اٹھ جاتے ہیں سوائے اس کے جس نے الارم لگایا ہوتا ہے۔۔
بات ہورہی تھی کورونا کی۔۔ کسی فیصل آبادی کو جب فون پر اطلاع دی گئی کہ تیرا پھوپھا فوت ہوگیا ہے تواس نے برجستہ پوچھا، کیسے، سادہ یا کورونا؟؟اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نیند اور غیرت کبھی کسی کے کہنے سے نہیں آتی۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔