world cup bharat nakaam meezbaan

کورونا اور فیک نیوز۔۔

تحریر: علی معین نوازش۔۔

اتوار کو دنیا بھر میں صحافت کا عالمی دن منایا گیا، دنیا بھر میں صحافتی اقدار اور صحافتی آزادی کے لیے آواز اور نعرے بلند ہوئے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں صحافتی آزادی پر دنیا بھر تشویش کا اظہار کیا گیا، اب آپ کو یہ سازش لگتی ہے یا حقیقت، آپ کی اپنی رائے ہو گی لیکن کسی صحافی سے ایک بات ضرور پوچھی جائے کہ اس کو آج کتنی آزادی میسر ہے۔ کورونا کی اِس وبا کے دوران اور کچھ ہو نہ ہو، ہمارے میڈیا سمیت دنیا بھر کے میڈیا کا ایک بہت مثبت کردار ضرور سامنے آیا ہے اس کے ذریعے ہی صحیح معلومات اور درست خبر لوگوں تک پہنچائی گئی۔ میڈیا نے بار بار یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ وبا کتنی خطرناک ہے اور سماجی فاصلہ جیسے اقدام کتنے ضروری ہیں۔ لیکن جہاں پر میڈیا اپنی یہ ذمہ داری بھرپور انداز میں ادا کر رہا ہے، وہیں پر فیک نیوز، سازشی تھیوریاں اور ڈس انفارمیشن نے بھی خوب جنم لیا ہے اور حکومتوں کے وبا روکنے کے اقدامات میں بڑی رکاوٹیں پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو گمراہ بھی کیا ہے۔

دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں، حکومتوں اور انٹرسٹ گروپوں وغیرہ کی جانب سے لوگوں کو فیک نیوز، کانسپریسی اور ڈس انفارمیشن کا عادی بنایا گیا ہے۔ اپنے مقاصد پورے کرنے کے لیے فیک نیوز کا استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا ان کو بحث یا منطق سے سمجھانے سے کہیں آسان ہے۔ بالخصوص جب مقابل اپنے ہی تضادات ہوں اور اپنے غلط عمل کا دفاع کرنا مقصود ہو تو وہاں پر کانسپریسی، فیک نیوز یا ڈس انفارمیشن کا سہارا لینا ہی آسان ہوتا ہے۔ لیکن اِس عمل میں ہم اپنے لوگوں کو، جو ویسے بھی من گھڑت چیزیں سنانا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں، نہ صرف گمراہ کیا جاتا ہے بلکہ ان کو فیک نیوز پر یقین کرنے کی عادت بھی ڈالی جاتی ہے۔ پھر اپنے ’’سچ‘‘ کو سچ دکھانے کے لیے جو مصدقہ اور پروفیشنل میڈیا ہے، اور جو صحافی جو سچ بول رہے ہوتے ہیں، ان کو ڈس کریڈٹ کیا جاتا ہے یعنی ناقابل بھروسہ بنایا جاتا ہے تاکہ اگر کوئی اس کی نشاندہی کرے بھی تو کوئی اس پر یقین نہ کرے۔

اسی عادت اور اسی سوچ کی بنا پر ہمارے عوام کانسپریسی تھیوری اور فیک نیوز کے زد میں آتے رہتے ہیں تاہم یہ معاملہ صرف پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ بہت سارے ممالک جن میں ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں، کے ساتھ درپیش ہے۔ عام طور پر جب سیاسی باتیں ہوتی ہیں تو تب بھی معاملہ سریس ہوتا ہے لیکن اس کی سنجیدگی تب بہت بڑھ جاتی ہے جب بات انسانی صحت کی ہو اور دنیا دورِ وبا سے گزر رہی ہو ایسے میں  صحیح اور غلط معلومات کا فرق زندگی اور موت کا فرق بن جاتا ہے۔

اس وقت بہت سارے وٹس ایپ میسج اور سوشل میڈیا وڈیوز وغیرہ یہ تاثر دے رہی ہیں کہ یہ وبا یا تو سرے سے ہے ہی نہیں، یا کوئی سازش ہے، یا حکومت جھوٹ بول رہی ہے۔ کچھ افراد کورونا سے متعلق غلط علاج بتا کر لوگوں کی جانوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ کچھ ایسی وڈیوز بھی سامنے آ رہی ہیں جن میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ کیسا کورونا ہے، ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ مساجد یا دین اسلام کے خلاف (نعوذ باللہ) کوئی سازش ہے۔ اِس طرح کی چیزوں کی مقبولیت اور ان کے اتنا وائرل ہونے کا مطلب ہے کہ لوگ اِن پر یقین کر رہے ہیں اور اِس حد تک کر رہے ہیں کہ ان کو مزید پھیلا رہے ہیں۔ کچھ تعلیم یافتہ طبقے بھی اسے ادویات بنانے والی کمپنیوں اور بل گیٹس کی سازش کہتے ہیں اور کم علم لوگ امریکہ، چین یا دیگر ملکوں کا منصوبہ قرار دیتے ہیں۔ حتمی نتیجہ اس سب کا یہ نکلتا ہے کہ لوگ اِس وبا کو خاطر میں نہیں لاتے۔ آپ سڑک پر نظر ڈالیں تو آپ کو روز لاک ڈاؤن کی دھجیاں اڑتی نظر آئیں گی۔ لوگ سماجی فاصلے پر بھی پوری طرح عمل نہیں کر رہے۔ یہ حکومت اور ہم سب کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ اِس وبا پر قابو پانے کے لیے یہ سب اقدام نہایت ضروری ہیں۔

ایسے وقت میں اِس مسئلے کا بہترین حل ہمارے سامنے ہے اور وہ ہے ہمارا میڈیا اور ہماری صحافت جس پر لوگ اعتبار کرتے ہیں۔ اگر گزشتہ سالوں سے اس کی ساکھ گرانے کی کوشش نہ کی جا رہی ہوتی تو آج یہ وبا کے خلاف ایک طاقتور ترین ہتھیار ہوتا۔ یہ ایک اہم سبق ہے کہ ایک طاقتور اور بااعتبار میڈیا کیوں ضروری ہے۔ فیک نیوز، ڈِس انفارمیشن اور سازشی مفروضے انسانی جان کے لیے بھی خطرناک ہیں۔ ابھی ہم کورونا سے نمٹ رہے ہیں، کل کو کوئی اور آفتیں بھی آ سکتی ہیں۔ یہ ڈس انفارمیشن اور فیک نیوز کی فضا ایسی آفتوں سے نمٹنے کے لیے غیر موثر ہے۔ یہ صحافت کے عالمی دن کا اِس وبا کے پس منظر میں سب سے اہم سبق ہے۔ہر آفت اور امتحان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے لیکن کامیاب وہی قومیں ہوتی ہیں جو اپنی غلطیاں تسلیم کرکے انہیں سدھارتی ہیں۔

امریکہ میں بھی آج کل لوگ لاک ڈاؤن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور اس وبا کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ یہ لوگ اپنی بھی اور دوسرے لوگوں کی بھی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ امریکہ میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ کورونا کیسز ہونے کی وجہ یہی فیک نیوز، ڈس انفارمیشن اور سازشی تھیوریاں ہیں، جو کافی عرصے سے وہاں منظم انداز میں پھیلائی گئیں اور آج امریکہ اس کا نتیجہ بھگت رہا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں بھی دلیل اور سچ کا مقام کھو رہا ہے، جسے واپس لوٹانا بہت ضروری ہو گیا ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں