تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،نوماہ سے کورونا کورونا ہورہا ہے۔۔ اس بار ملک بھر میں کورونا کی دوسری لہر آئی ہوئی ہے جس کے متعلق کہاجارہا ہے کہ نیا کوروناوائرس ٹیسٹ میں ظاہر نہیں ہورہا۔یہ زیادہ خطرناک ہے اور پورے گھر کو متاثر کررہا ہے۔ جب کہ گزشتہ لہر کے مقابلے میں یہ زیادہ عرصے تک بیمار بھی کررہا ہے۔مقامی انگریزی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا تھا کہ وائرس نے اپنی ہیئت تبدیل کرلی ہے اور پاکستان میں اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔جب کہ وفاقی دارالحکومت سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وقت ضائع کیے بغیر ذاتی طور پر لاک ڈائون اور میل ملاپ کم کرنا ہوگا اور لازمی طور پر ایس او پیز پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ایک سال، چار سال کے بچوں سمیت نوجوان اور بوڑھے سب اس وبا سے متاثر ہورہے ہیں۔ماہرین کا کہنا تھا کہ فلو کا موسم چل رہا ہے اور اس کے ساتھ کوروناوائرس زیادہ جان لیوا صورت اختیار کرگیا ہے۔یعنی موسم کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس بار کورونا وائرس میں بھی تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے۔۔
بات کورونا وائرس کی ہورہی ہے تو لازمی ہے اس کے لئے احتیاطی تدابیر یعنی ایس او پیز بھی ضروری ہیں۔۔ان حالات میں بھی جب کہ کورونا کا دوسرا وار سر پر خطرے کی تلوار بن کر لٹکاہوا ہے، شادیاں بھی ہورہی ہیں اورزندگی کے دیگر معاملات بھی رواں دواں ہیں۔۔ ہماری قوم اتنی نڈر اور بے خوف ہوگئی ہے کہ لگتا ہی نہیں کسی کو یہ موذی وائرس بھی متاثر کرسکتا ہے۔۔ ہمارے پیارے دوست نے شادی سیزن کے حوالے سے کچھ قیمتی مشورے دیئے ہیں۔۔ کورونا میں شادی ہالز ان ایس اوپیز سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔۔ دودھ پلائی کی رسم ختم کر کے اس کی جگہ صنعا مکی کا قہوہ پلایا جائے۔۔کھانا ڈبوں میں پیک کر کے دے دیا جائے تاکہ سب لوگ گھر جا کر اپنے برتنوں میں کھائیں ۔۔ دلہا دلہن کی اینٹری کے وقت پھول پھینکنے کے بجائے ڈس انفیکٹ سپرے کیا جائے ۔۔ باقی تمام لوگ چاہے وہ باراتی ہوں یا دلہن کی طرف سے شادی میں شریک ہوں، وہ اپنے گھر سے پرفیوم کے بجائے ڈس انفیکشن سپرے چھڑک کر آئیں(جس کے کپڑوں سے سپرے کی بو نہیں آرہی ہو اس کی اینٹری روک دی جائے )۔۔شادی کی محفل میں موجود تمام لوگوں کو سیناٹائزر، ماسک اور ٹشو پیپر دیے جائیں ۔۔ شادی ہال میں گانوں کی بجائے آج کل موبائل فون پر جو رنگ ٹون حکومت کی طرف سے لگی ہوئی ہے (کرونا وائرس کی وبا خطرناک ہے) بار بار سنائی جائے ۔۔۔ نکاح کے بعد باراتی دلہے کے قریب جا کر گلے مل کر مبارک باد نہیں دے سکتے،صرف دور سے ارطغرل والے سلام کی اجازت دی جائے۔۔ کرنسی نوٹ کی سلامی نہیں لی جائے بلکہ سب لوگ جاز کیش کی سہولت کا استعمال کریں گے یاپیسے آن لائن دولہا دلہن کے اکاؤنٹ میں منتقل کئے جائیں۔۔ جن دوستوں، رشتہ داروں سے تین دن کے اندر اندر سلامی وصول نہ ہو، ان کی اطلاع ون فائیو پر دے دی جائے، پولیس خود وصولی کرکے پہنچادے۔۔ہدایات پر عمل نہ کرانے والے شادی ہال مالکان کے شادی ہال کو قرنطینہ مرکز میں بدل دیا جائے گا۔اور وہاں ان مہمانوں کو قرنطینہ کیا جائے گا جنہوں نے SOP’s کی خلاف ورزی کی ہو گی۔۔
اب آپ لوگ مخمصے میں پڑگئے ہوں گے کہ ہم نے یہ کیسی ایس اوپیز بتا دیں؟؟ مخمصے پر یاد آیا۔۔ ایک شاگرد اپنے ٹیچر سے الجھ پڑا، اسے مخمصے کا مطلب سمجھ نہیں آیا تھا۔۔ استاد نے کافی تشریح کی مگر شاگرد مطمئن نہ تھاپھر استاد نے کہا کہ میں تم کو ایک واقعہ سناتا ہوں،شاید تمہیں مخمصے کی سمجھ آ جائے۔۔کراچی کی ایک مصروف شاہراہ پر پر ایک باپ اور اس کا بیٹا موٹر سائیکل پر جارہے تھے۔ ان کے آگے ایک ٹرک تھا جس میں فولادی چادریں لدی تھیں۔ اچانک ٹرک سے ایک فولادی چادر اڑی اور سیدھی باپ بیٹے کی گردن پر آئی۔ دونوں کی گردن کٹ گئی۔ لوگ بھاگم بھاگ دونوں دھڑ اور کٹے ہوئے سر لے کر ہسپتال پہنچے،ڈاکٹروں نے کئی گھنٹے کے طویل آپریشن کے بعد کٹے ہوئے دونوں سر دھڑوں سے جوڑ دیئے۔ دونوں زندہ بچ گئے۔دو ماہ تک دونوں باپ بیٹا انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے،گھر والوں کو بھی ملنے کی اجازت نہیں تھی۔ دو ماہ بعد وہ گھر آئے تو ایک ہنگامہ مچ گیا،باپ کا سر بیٹے کے دھڑ پر اور بیٹے کا سر باپ کے دھڑ سے لگ گیا تھا۔۔ شاگرد منہ کھولے بہت حیرت سے سن رہا تھا۔۔ٹیچر نے اپنی بات جاری رکھی۔ گھڑمس پیدا ہوگیا کہ اب بیٹے کی بیوی شوہر کے دھڑ کے ساتھ کمرے میں رہے یا شوہر کے سر کے ساتھ؟ اگر وہ شوہر کے سر کے ساتھ رہتی ہے تو دھڑ تو سُسر کا ہے،اب کیا ہوگا؟ادھر یہ گھڑمس کہ ماں اگر شوہر کے سرکے ساتھ رہے تو دھڑ بیٹے کا ہے۔ اگر شوہر کے دھڑ کے ساتھ رہے گی تو سر تو اس کے بیٹے کا ہے۔ گھر کی صورتحال انتہائی کشیدہ تھی۔بیٹا اپنی بیوی کا ہاتھ تھامنا چاہے تو وہ نیک بخت کہتی کہ مجھے ابا جان کے ہاتھوں سے شرم آتی ہے۔ سٗسر اپنی بیوی کے پاس اس لئے نہیں پھٹکتے کہ بیٹے کے دھڑ اور ماں یعنی ان کی بیوی میں ابدی حرمت ہے۔کہیں موٹر سائیکل پر جانا ہو تو ایک پریشانی کہ بہو شوہر کے دھڑ کے ساتھ بیٹھے یا سُسر کے سر کے ساتھ؟۔ الغرض ان کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ تمام معمولات ٹھپ ہو گئے۔ ایسے میں کسی نے مشورہ دیا کہ یوں کیا جائے کہ دونوں اپنی اپنی منکوحہ کو طلاق دے دیں اور از سرِ نو نکاح کریں تاکہ دھڑ حلال ہو جائیں۔۔شاگرد پوری توجہ سے سن رہا تھا اور بہت پریشان تھا کہ اب کیا ہوگا۔؟؟ٹیچر نے شاگرد کو حیران دیکھا تو پوچھا۔۔تم اب بتاؤ کہ اگر لڑکے کی ماں طلاق لے تو کس سے لے؟ بیٹے کے دھڑسے یا شوہر کے سر سے؟ادھر بہو کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے،شوہر کے سر سے طلاق لے یا سُسر کے دھڑ سے؟ایسے میں کیا فیصلہ ہونا چاہئے؟۔۔ شاگرد بولا، استاد جی،میرا تو دماغ بند ہو گیا،مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کیا جائے۔۔ٹیچر گویا ہوا۔۔ بیٹا،بس یہ جو تمہاری کیفیت ہے نا اسے ہی مخمصہ کہتے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سردیاں آ گئی ہیں، چکوال والی پہلوان ریوڑی، سرگودھا والے مالٹے، جھنگ والی مچھلی، ملتان اور ڈیرہ اسمعیل خان والا سوہن حلوہ، خوشاب کا ڈھوڈا، اوکاڑہ، شیخوپورہ، فیصل آباد والے دیسی گڑ، چکوال، اٹک، گجرخان والے مونگ پھلی، کشمیر اور کے پی والا دیسی شہد۔حویلیاں ہزارہ اخروٹ، بادام، پستہ، کاجو، گجرات کے لوکل