تحریر: انصار عباسی۔۔
کورونا اب پاکستان میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور اب شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جس کے جاننے والے، کسی عزیر رشتہ دار کو یہ وائرس نہ لگا ہو لیکن اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس وائرس کے شکار افراد میں بہت ہی کم تعداد کے لوگوں کو تشویش ناک بیماری اور موت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔میرے بھی بہت سے جاننے والوں، رشتہ داروں کو اس وائرس کا سامنا کرنا پڑا لیکن رب کریم کی رحمت سے سب کے سب یا تو بالکل صحت یاب ہو چکے ہیں یا اگر اُن کو کوئی بیماری ہے بھی تو وہ تشویش ناک نہیں ہے۔ ایک جاننے والے کی نوے سالہ بہن، اُن کے ساٹھ سالہ بیٹے اور گھر کی دوسری خواتین کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا لیکن ماشاء اللہ سب ٹھیک ہو گئے، کسی کو تشویش ناک حالت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
مری سے تعلق رکھنے والے ایک میاں بیوی جن کی عمر کوئی اسّی سال کے لگ بھگ ہے، کے بیٹے اور کچھ دوسرے جاننے والوں کو کورونا ہوا، کچھ نے ٹیسٹ کروایا کچھ نے کہا وہ ٹیسٹ نہیں کروائیں گے لیکن اللہ کے کرم سے سب بخار اور کچھ دوسری ہلکی پھلکی بیماریوں کے بعد ٹھیک ہو گئے ہیں۔ایک جاننے والے کو کورونا کی وجہ سے کوئی دس پندرہ دن بخار ہوا، وہ گھر پر ہی رہے اور عام دوائیوں سے علاج کرتے رہے، اب اُن کا بخار بھی اتر گیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اس بخار سے اُنہیں بہت کمزوری محسوس ہوئی۔ پہلے تو میرے آبائی علاقہ مری میں کورونا کی شکایات بہت کم تھیں لیکن اب یہ وائرس وہاں بھی بہت پھیل چکا ہے۔
بہت بڑی تعداد میں لوگ ٹیسٹ کرائے بغیر ظاہر ہونے والی علامات کا علاج کرتے ہیں اور میرے کسی ایک بھی جاننے والے کی حالت تشویش ناک نہیں ہے۔ برطانیہ میں مقیم ایک جاننے والے سے میری کچھ دن پہلے بات ہوئی تو اُنہوں نے بتایا کہ اُن سمیت اُن کی بیوی اور تمام بچوں کو کورونا کی علامات ظاہر ہوئیں لیکن وہ نہ اسپتال گئے اور نہ ہی اُن کی حالت اتنی خراب ہوئی کہ وہ اسپتال جانے کے بارے میں سوچتے۔اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے بچے تو دو، دو دن چھوٹی موٹی بیماری کے بعد ٹھیک ہو گئے لیکن وہ اور اُن کی بیوی کو کوئی دس پندرہ دن بخار، کھانسی اور گلے درد کا مسئلہ رہا جو عام دوائیاں کھانے سے ٹھیک ہو گیا۔
میری معلومات کے مطابق مری میں اب تک کورونا سے دو افراد وفات پا چکے ہیں جن میں سے ایک کی فیملی کو میں جانتا ہوں جن کا کہنا ہے کہ اُن کے عزیر کی موت کورونا سے نہیں ہوئی لیکن اسپتال والوں نے کہا کہ اگر میت کو فوری لینا ہے تو اسے کورونا ڈکلیئر کرنا پڑے گا۔ اس فیملی کے مطابق اُنہوں نے مرحوم کا کورونا ٹیسٹ ایک پرائیوٹ لیب سے بھی کروایا تھا جس کے مطابق اُن کا کورونا نیگیٹیو تھا۔اس قسم کی شکایات بہت سے لوگ کرتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ عمومی طور پر اسپتال ایمرجنسی میں لائے گئے مرنے والے ہر مریض کو کورونا کا متاثر ڈکلیئر کر دیتے ہیں۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر حکومت کو توجہ دینی چاہیے تاکہ کسی دوسرے امراض سے مرنے والے کو کورونا کا متاثرہ نہ ڈکلیئر کیا جائے۔
ایک اور معاملہ جو بہت خطرناک ہے وہ کورونا ٹیسٹ کی درستی کے بارے میں ہے۔ یہ شکایت عام ہے کہ اگر ایک لیب کسی فرد کو کورونا مثبت ظاہر کرتی ہے تو کوئی دوسری لیب اُس کو کورونا منفی دکھاتی ہے۔ ٹیسٹ حکومتی اسپتالوں، این آئی ایچ کے ہوں یا نجی لیب اور اسپتالوں کے، ان ٹیسٹوں کے درستی پر بہت سوال اٹھائے جا رہے ہیں جس کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کورونا ٹیسٹ مستند ہوں۔
کورونا ٹیسٹوں سے متعلق شکوک و شبہات کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ ایک ٹیسٹ سے مطمئن نہیں ہوتے۔ خصوصاً جن افراد کا پہلا کورونا ٹیسٹ مثبت آتا ہے تو وہ اپنا دوسرا ٹیسٹ ضرور کسی دوسری لیب سے کرواتے ہیں اور دوسرا ٹیسٹ مثبت ہونے پر کسی تیسری لیب سے ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔
یعنی کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے نام پر دھوکا بھی ہو رہا ہے اور خوب پیسہ بھی کمایا جا رہا ہے۔ اس معاملہ کی طرف حکومت کو فوری توجہ دینی چاہئے۔ابھی تک کورونا کے معاملہ میں پاکستان میں ہونے والی اموات اُس اندازے سے بہت کم ہیں جس کا عمومی طور پر ہمیں ڈر تھا۔
حقیقت میں پاکستان میں ہو سکتا ہے کوئی دس بیس لاکھ لوگ کورونا سے متاثر ہو چکے ہوں کیونکہ ہمارے ہاں نہ تو بہت زیادہ ٹیسٹ کروانے کی استعداد ہے اور نہ ہی ہمارے زیادہ تر لوگ ٹیسٹ کرانے کو ترجیح دیتے ہیںلیکن اس سب کے باوجود لوگوں کو چاہئے کہ وہ احتیاط ضرور کریں اور اُن ہدایات پر ضرور عمل کریں جو اس وائرس سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو بچانے کے لیے ضروری ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔