تحریر: منصور آفاق۔۔
میانوالی سے لاہور کیلئے نکلا تو دریائے جہلم کے ٹول پلازے پر بیس روپے دینا تھے، میں نے اسے سو روپے کا نوٹ دیا، اس نے اسی روپے واپس کئے۔ میں نےوہ دس دس والے آٹھ نوٹ ایسے پکڑے اور انہیں کار ڈیش بورڈ پر پھینک دیا جیسے یہ نوٹ کورونا وائرس ہوں۔ جلدی جلدی سینی ٹائزر نکالا اور ہاتھوں پر لگایا۔سیال انٹر چینج سے موٹر وے کائونٹر والے نے کارڈ دیا تو پھر وہی خوف کہ کہیں اس کارڈ پر کورونا کا کوئی جراثیم نہ پھرتا ہو۔پھر سینی ٹائزر نکالا اوراُس سے کارڈ کو اچھی طرح صاف کیا۔ موٹروے سے اترنے لگا تو پھر کچھ بقایا رقم ملی۔ اسے پکڑنے کے بعد پھر سینی ٹائزر لگایا۔ لاہور پہنچ کر کار میں پٹرول ڈلوایا، پھر سینی ٹائزر لگایا۔ ریستوران میں کھانا کھایا، پھر سینی ٹائزر لگایا۔اے ٹی ایم سے رقم نکالی پھر سینی ٹائزر لگایا۔ دو دن لاہور قیام رہا۔ بس ہاتھوں پر سینی ٹائزر ہی لگاتا رہا۔ ایک دوست ملنے آیا تو اسے اُسی وقت پتا چلا کہ اس کے گھر میں فلاں کا کورونا ٹیسٹ پازٹیو آ گیا ہے۔ اس لئے وہ خود بھی فوری طور پر اپنا ٹیسٹ کرائے۔خوف کی ایک لہر سی وجود میں دوڑ گئی۔ اس کے جانے کے بعد کمرے کے اُس حصے میں اچھی طرح اینٹی وائرس اسپرے کیا، جہاں وہ بیٹھا رہا تھا۔ مسلسل فون پر اُس سے پوچھتا رہا۔ اُس وقت چین آیا جب علم ہوا کہ اس کا ٹیسٹ نیگیٹیو آ گیا ہے۔
لاہور میں جس شخص سے بھی ملا اس نے اپنے کسی نہ کسی آشنا کے کورونا ہونے کی خبر ضرور سنائی۔ قریبی مارکیٹ گیا تو وہ بند تھی، پتا چلا کہ دہی دودھ والے کو کورونا ہو گیا تھا اس لئے ساری مارکیٹ ہی سیل کر دی گئی ہے۔ ایک دوست کے گھر گیا تو وہاں کوئی ملازم نہیں تھا۔سارا کام وہ خود کرتا پھر رہا تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا ایک ملازم کورونا ہو گیا اس نے خوف زدہ ہو کر باقی ملازمین بھی فارغ کر دیے۔ سہیل وڑائچ کا پتا کیا تو معلوم ہوا انہیں بھی کورونا ہو چکا ہے۔ کیسی ظالم بیماری ہے کہ آدمی عیادت بھی نہیں کر سکتا۔
دنیا کا سب سے منحنی دیو پاکستان میں بھی بپھر چکا ہے۔ اس کی سناٹے دار آواز دلوں میں خوف کی بستیاں بسا چکی ہے۔ ہمیں شاید کورونا کے درد سے نکلتے نکلتے برسوں لگ جائیں۔ بےشک کورونا کی زنجیر لاک ڈائون کھولنے سے کھلی ہے۔ بیچارےعمران خان بھی پریشان تھے کہ سوچتے تھے لاک ڈاؤن میں غریب کیا کریں گے۔ بری طرح پس کر رہ جائیں گے۔دہاڑی دار کے پاس تو کچھ بھی پس انداز کیا ہوا نہیں ہوتا۔ حکومت نے جو بارہ بارہ ہزار روپے دیے اُس سے کسی غریب کا چولہا کتنے دن جل سکتا ہے۔ سو انہوں نے غریبوں کی محبت میں کورونا کے آسیب کو گلے لگا لیا۔
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اس بلائے ناگہانی سے محفوظ فرمائے مگر حالات بہت ناگفتہ بہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں مریضوں کی تعداد ایک ماہ میں اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ عام آدمی کیلئے کورونا کا ٹیسٹ ممکن ہی نہیں رہے گا۔اب بھی کورونا کے پرائیویٹ ٹیسٹ صرف امیر لوگ کرا رہے ہیں۔ غریبوں میں کہاں اتنی استطاعت کہ اتنا مہنگا ٹیسٹ کرا سکیں۔مجھے یاد ہے جب عمران خان نے کورونا کے حوالے سے تقریر کرنا تھی۔ مجھے اس وقت کی مشیرِ اطلاعات و نشریات فردوس عاشق اعوان نے فون کیا کہ خان صاحب کی تقریر کیلئے کوئی پوائنٹ دو۔ میں نے کہا تھا حکومت کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ امیروں سے دولت لے کر غریبوں میں تقسیم کرے۔ عمران خان کو امیروں پر ’’مدد ٹیکس‘‘ لگا دینا چاہیے۔
لاک ڈائون نہیں کھولنا چاہئے کیونکہ لاک ڈاؤن کھولنے سے بہت بڑی بربادی ہو گی۔ میرے منہ میں خاک مگر وہی کچھ ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ لاہور اور اسلام آباد کورونا کے گڑھ بن چکے ہیں۔ این آئی ایچ نے قومی اسمبلی کے 382ملازمین ٹیسٹ کئے جس میں سے 67پازیٹو آئے ہیں یعنی پارلیمنٹ ہائوس کورونا ہائوس بن چکا ہے۔
اسپیکر قومی اسمبلی سے لے کر کافی ایم این ایز تک اس کا شکار ہو چکے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اسمبلی ہال کی عمارت سنٹرلی ایئر کنڈیشنڈ ہے اور اس کے پائپوں میں کورونا چلا گیا ہے سو جیسے ہی اسے آن کیا جاتا ہے ٹھنڈی ہوا لوگوں میں کورونا بانٹنے لگتی ہے۔فواد چوہدری نے بھی اپنے ٹویٹ میں لکھا ہے کہ ایم این ایز کی ایک بڑی تعداد کورونا کا شکار ہو جائے گی۔ بے شک اسمبلی بجٹ اجلاس میں اس بات کا بہت خطرہ ہے۔ مراد علی شاہ بھی بار بار کہہ رہے ہیں ’’خطرناک صورتحال کی طرف جا رہے ہیں‘‘۔
جیلوں میں بھی کورونا کے مریض کافی تعداد میں ہیں۔ کوئٹہ جیل کے ایک قیدی کا انتقال بھی ہو چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت پاکستان دنیا میں کورونا کے تیز ترین پھیلاؤ والا ملک بن گیا۔ اس نے پاکستان میں فوری طور پر لاک ڈائون کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے مشتبہ مریضوں کی تلاش، ٹیسٹ، آئسولیشن، قرنطینہ، رابطوں کو ڈھونڈنے کے پاکستان کے نظام پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کیلئے اپنی ٹیسٹنگ صلاحیت یومیہ 50ہزار تک بڑھانا نہایت ضروری ہے مگر وزیراعظم کے مشیرِ صحت فرماتے ہیں کہ عالمی ادارہ صحت کی تجاویز پر عمل درآمد ضروری نہیں۔ حیرت ہوتی ہے حکمرانوں پر کہ وہ کس طرح سوچتے ہیں۔
سوچتا ہوں کہ ایک دو ماہ بعد جب پاکستان میں لاکھوں کورونا کے مریض ہوں گے جن کوعلاج معالجہ کی سہولتیں میسر نہیں ہوں گی تو کیا ہوگا۔ کیا عوام سڑکوں پر نہیں آ جائیں گے۔
سوچتا ہوں کہیں غریب لوگ لوٹ مار پر تو مجبور نہیں ہو جائیں گے۔ کہیں پاکستان میں ہنگامے تو نہیں پھوٹ پڑیں گے۔
کہیں ہم کسی ہولناک مستقبل میں تو نہیں داخل ہو رہے۔ یہاں طبقاتی کشمکش تو شروع نہیں ہونے والی۔ کئی اور خوفناک سوال بھی میرے ذہن میں سلگ رہے ہیں۔ اللہ کرم کرے۔(بشکریہ جنگ)۔۔