تحریر: حمنہ اسحاق۔۔
ہم سب اپنی زندگیوں میں مگن تھے ۔ ہماری زندگی مشینوں کی طرح رواں دواں تھی۔ ایک ریس لگی ہوئی تھی اور ہم سب اس ریس میں ایک دوسرے پر پیر رکھ کر آگے بڑھ رہے تھے۔ خدا کو بھول بیٹھے خود کو خدا سمجھ بیٹھے تھے۔ پھر ایک ایسی وبا نے جنم لیا کہ ہم سب تھم گئے ۔ ہماری مشینی زندگی کا بٹن بند کر دیا گیا اور ہمیں بتایا گیا کہ بس اس کے کن کہنے کی بات ہے اور سب فنا ہو جائے گا ۔ کورونا ایک بہت بڑی وبا ہے ۔ جس کا سامنا پوری دنیا کو ہے ۔ وہ ممالک جو اپنے آپ کو بڑی بڑی طاقتیں سمجھ بیٹھے تھے آج کورونا کے سامنے ہار بیٹھے ہیں ۔ جب کورونا سے پاکستان متاثر ہونے لگا اور ہم لوک ڈاؤن کی صورتحال میں آگئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ گھر صرف سونے کے لئے نہیں ہوتا ۔ گھر میں موجود لوگوں سے بھی آپ کا کوئی رشتہ ہے۔ سارے کاروبار بند ہوگئے ۔ زندگیوں کو پوز کا بٹن دبا دیا گیا ۔ ہمیں احساس ہی نہیں تھا ہم ایک مشینی زندگی گزار رہے ہیں ۔ جو ایک دن ہمیں کم پڑتا تھا ڈھیروں کام کرنے کے لیے وہی ایک دن ختم ہونے کا نام نہیں لیتا ہے ۔ جو ہماری زندگیوں کا لازمی حصہ بن گئے تھے اور ہمیں لگتا تھا کہ ان کے بغیر اب زندگی نہیں گزاری جا سکتی تھی ان کہ بغیر بھی زندگی گزار رہی ہے جن لوگوں سے روز ملاقات ہوتی تھی اب وہ وڈیو کالز اور وائس میسجز تک محدود ہو گئی ہیں ۔ اور جن گھر والوں سے رشتہ صرف سلام ، دعا تک محدود ہو گیا تھا آج جب ان کے ساتھ ٹائم گزارا تو معلوم ہوا کہ اصل زندگی تو یہی ہے جو شائد ہماری زندگیوں کی بھاگ دور میں ہم سے روٹھ سی گئی تھی۔ یہ وبا شائد ہمیں یہ بتانے آئی ہے کہ یہ جو ہم سب آگے بڑھنے کی دور میں لگے ہیں نہ اگر اللہ نہ چاہے تو پتہ تو کیا ایک چیونٹی بھی نہ رینگے ۔ کورونا کا آنا ، زندگیوں کا تھمنا اصل میں ہمیں یہ بتا گیا ہے کہ اصل زندگی تو یہی ہے جو اپنے پیاروں کے ساتھ ہم گھر میں گزار رہے ہیں ۔ کورونا کا آنا ، زندگیوں کا تھمنا ، اصل زندگی سے ملوا گیا۔ اور ہمیں یہ احساس دلا گیا ہے کہ ہمیں اپنے پر حال پر شکر گزار رہنا چاہیے جس میں اللہ نے ہمیں رکھا ہو ۔ کیونکہ وقت ایک بار گذار جائے تو لوٹتا نہیں ہے اور پھر ہمارے پاس پچھتاوے اور یادوں کے علاؤہ کچھ نہیں رہ جاتا۔ جیسے ابھی ہم اپنی پچھلی زندگی میرا مطلب ہے تین مہینے پہلے والی زندگی کو یاد کر رہے ہیں ۔ جس کو ہم صرف ایک مشین کی طرح سے گزار رہے تھے ۔ اس سے پہلے کہ یہ وقت بھی گذار جائے ، اس وقت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں اپنی شخصیت کو ڈھونڈیں اور اس کو نکھارنے کی کوشش کریں کیونکہ یہ وقت بھی پچھلے وقتوں کی طرح گذار ہی جائے گا۔ اور ایک کہانی کی صورت ہمارے کتابوں کا حصہ بن کر رہ جائے گا۔(حمنہ اسحاق)۔۔