تحریر: روف کلاسرا۔۔
کہا جاتا ہے کہ سب انسان برابر خوبیوں کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں لیکن ماحول اور مواقع طے کرتے ہیں کہ آپ نے عقلمند بننا ہے یا بیوقوف‘ جینئس یا عام ذہانت کا انسان۔ جو لوگ ہمیں زیادہ سیانے لگتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں لائف میں دوسروں سے بہتر مواقع ملے‘ چاہے وہ اچھے پڑھے لکھے اور مالدار والدین کی شکل میں ہی کیوں نہ ہوں جنہوں نے اپنے بچوں کو نہ صرف زندگی کی بہتر سہولتیں فراہم کیں‘ بلکہ اچھے سکولوں اور کالجوں میں پڑھایا بھی جس سے زندگی کی دوڑ میں وہ دوسروں سے آگے نکل گئے۔ چنانچہ جو لوگ ہم پر حکمرانی کرتے ہیں وہ بھی اسی وجہ سے کہ انہیں زندگی میں بہتر مواقع ملے اور انہوں نے مواقع کو سمجھداری سے استعمال کیا۔ اس لیے اب وہ ہماری زندگی اور موت کے فیصلے کرسکتے ہیں۔ وہ ہماری خون پسینے کی کمائی سے تعمیر کیے گئے اربوں روپوں کے سرکاری محلوں یا وزرا کالونیوں میں رہ سکتے ہیں‘ ان کا کھانا پینا‘ رہنا سہنا‘ دنیا بھر کے سیر سپاٹے‘ میڈیکل‘ ٹرانسپورٹ‘ الاؤنس‘ سفر کیلئے خصوصی جہاز‘ لگژری گاڑیاں‘ درجنوں گارڈ اور پھر ہر ماہ تنخواہ عوام کی جیب سے دی جاتی ہے‘ کہ یہ زیادہ سمارٹ ہیں‘ ہینڈسم ہیں‘ ہم سے زیادہ عقلمند ہیں لہٰذا ان کا پیدائشی حق ہے کہ یہ ہم پر حکمرانی کریں‘ بلکہ ان کے بچے بھی ہم پر حکمرانی کریں۔ سوال یہ ہے عوام یہ سب کس لیے کرتے ہیں؟ کیا انہیں لگتا ہے کہ آپ کو سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں جو انہیں نہیں لگے ہوئے؟ تو پھر ان سرخاب کے پروں کا کیا فائدہ جب آپ عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہ کرسکیں۔ عوام آپ سے اس کے بدلے اپنی زندگی اور مال کی حفاظت مانگتے ہیں۔ کیا آپ اس امتحان میں پورے اترتے ہیں؟ باقی وعدوں کو جانے دیں‘ صرف کورونا وائرس کو دیکھ لیں۔ کتنی غیرسنجیدگی سے سارا معاملہ ہینڈل کیا گیا۔ اللہ نے کرم کیاکہ پاکستان میں کورونا نے اس طرح حملہ نہیں کیا جیسے دنیا کے دیگر ملکوں میں ہوا۔ چاہیے تو یہ تھاکہ ہم احتیاط بڑھا دیتے۔ ہمیں اپنی اوقات کا پتہ تھا کہ بات بڑھ گئی تو سنبھالی نہیں جائے گی‘ مگر ہم نے الٹا کیا۔ سب کچھ کھول دیا۔ چلو وہ تو اچھا کیا تاکہ لوگ بھوکے نہ مریں‘ لیکن کیا تُک بنتی تھی کہ ملک میں جلسے جلوس شروع کر دیے گئے۔ پی ڈی ایم کو اجازت دی گئی اور مریم نواز‘ بلاول یا مولانا فضل الرحمن سمیت کسی کو رحم نہیں آیا کہ اگر وائرس دوبارہ پھیلا تو عوام مارے جائیں گے۔ رہنمائوں کے نزدیک یہ لوگ اس لیے پیدا ہوئے ہیں کہ ان کے جلسوں میں آئیں تاکہ انہیں دوبارہ اقتدار ملے کیونکہ اپنے خرچے پر اب گھر نہیں چلتے اور نہ ہی گاڑیوں میں ذاتی جیب سے پٹرول ڈلوایا جا سکتا ہے۔ کہاں دس سال تک ذاتی گھروں کو کیمپ آفس ڈکلیئر کرکے اربوں روپے سکیورٹی اور گھر کے کچن چلانے پر عوام کی جیب سے لگائے گئے اور اب اپنی جیب سے صبح کا ناشتہ تک کرنا پڑتا ہے۔ کہاں درجن بھر لگژری گاڑیاں اسحاق ڈار انکل نے منگوا کر دی تھیں اور کہاں ایک مانگی تانگی گاڑی پر گزارہ کرنا پڑ رہا ہے‘ لہٰذا عوام مریں یا جئیں‘ جلسوں میں شریک ہوں۔ عوام کو بھی داد دیں کہ وہ بھی اُمڈ آئے کہ مرنا تو ایک دن ہے‘ کیوں نہ اپنے محبوب لیڈروں اور ان کے بچوں کو اقتدار میں لے آئیں۔
عمران خان صاحب کو پتہ چلا کہ بلاول‘ مریم اور مولانا ان پر برتری لے گئے ہیں تو انہوں نے سوچا کس کی مجال جو وزیراعظم سے زیادہ ہجوم اکٹھا کرکے دکھائے۔ پھر ان عظیم سیاسی لیڈروں کے درمیان مقابلہ شروع ہوگیا کہ کورونا کے دنوں میں کون کتنے لوگ اکٹھے کر پاتا ہے اور کتنی محنت سے وائرس پھیلا سکتا ہے۔ یوں کراچی‘ گوجرانوالہ‘ حافظ آباد‘ کوئٹہ‘ سوات‘ کراچی اور گلگت بلتستان تک مقابلہ ہوا‘ اورکورونا گیا تیل لینے۔ جب پوری دنیا کورونا کی ویکسین بارے پریشان تھی‘ اپنے بجٹ سے اربوں ڈالرز نکال کر کمپنیوں کے پاس ایڈوانس بکنگ کرا رہی تھی‘ اس وقت ہم عوام کو اپنے اقتدار کی خاطر سڑکوں پر لا کر کورونا پھیلا رہے تھے۔
اب اسد عمر صاحب کی سن لیں‘ جنہوں نے کابینہ کے دس نومبر کے اجلاس میں خوفناک صورتحال پیش کی کہ پاکستان میں پچھلے ایک ماہ سے کورونا تیزی سے پھیلا ہے۔ یہ وہی دن ہیں جب نواز شریف‘ عمران خان‘ بلاول بھٹو‘ مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن میں کانٹے کا مقابلہ چل رہا تھا کہ کون زیادہ لوگ باہر نکال سکتا ہے۔ اب کورونا ملک بھر میں پھر پھیل چکا ہے اور ان شہروں میں وہ شہر بھی شامل ہیں جہاں یہ جلسے کئے گئے۔ ذرائع کے مطابق ایک وزیر نے کابینہ میں پوچھ لیا کہ سنا ہے دنیا میں ویکسین ایجاد ہوگئی ہے‘ ہم نے اس معاملے میں کچھ کیا ہے؟ کیا ہمارے ہاں بھی ویکسین بائیس کروڑ لوگوں کو میسر آئے گی؟ اب جواب سنیں جو کابینہ اجلاس میں دیا گیا۔ بتایا گیا کہ وہ ساری ویکسین دنیا کے مختلف ممالک پہلے ہی اپنے شہریوں کے لیے خرید چکے ہیں۔ سب آرڈرز بک ہوچکے ہیں۔ نہ ہم نے ان کمپنیوں سے رابطہ کیا نہ ہماری اوقات تھی۔ ویسے بھی وہ ویکسین مائنس اسّی درجہ حرارت پر محفوظ رہ سکتی ہے اور ہمارے پاس اس کے انتظامات نہیں‘ لہٰذا ہمارے حساب سے ویکسین کا ایجاد ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ اور پاکستانی عوام بھول جائیں کہ مستقبل قریب میں یہاں ویکسین آئے گی۔ اس پر تمام وزیروں نے سکھ کا سانس لیا اور آخر میں فیصلہ ہوا کہ بس احتیاطی تدابیر ہوسکتی ہیں۔ وہی احتیاطی تدابیرجو وزیراعظم خود جلسوں میں توڑ آئے تھے۔ دوسری طرف بھارت میں میڈیا کو بتایا گیا کہ ان کی حکومت اس کمپنی سے رابطے میں ہے جس نے ویکسین بنائی ہے۔ وہ درجہ حرارت کے انتظامات بھی کررہے ہیں‘ اگلے سال کے شروع میں ویکسین منگوا کر لگانا شروع کردیں گے۔ ویسے حکومت کے لیے عرض ہے کہ اب نئی ویکسین بھی ایجاد ہوچکی ہے جس کا رزلٹ 95 فیصد ہے اور وہ عام فریج کے درجہ حرارت میں محفوظ رہ سکتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کون سا تیر مارا جائے گا یا پھر انتظار کیا جائے گا کہ دنیا کے سب ممالک اپنے شہریوں کو ویکسین لگا لیں اور اگر بل گیٹس کو ہم پر ترس آگیا تو شاید کچھ ڈالرز ہمیں دے دے کہ ویکسین خرید لواور پھر جب بل گیٹس کی بھیجی گئی ویکسین ہمارے ہاں آئے گی تو ہم ان خواتین ورکرز کو مارنے نکل پڑیں گے‘ جیسے پولیو ویکسین میں کیا۔
جب تک دنیا میں سب لوگوں کو ویکسین نہیں لگ جاتی اس وقت تک میرا خیال ہے ہمارے لیڈروں کو جلسوں جلوسوں کی تعداد بڑھا دینی چاہیے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ جب تک سب دنیا کو ویکسین نہیں لگ جاتی اور کوئی ترس کھا کر ہمیں مفت نہیں دے دیتا‘ ہم جلسے بھی نہ کریں۔ نہ ہم نے دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ویکسین کمپنیوں سے رابطہ کیا‘ نہ بکنگ‘ نہ لاجسٹک انتظامات‘ نہ ہم نے احتیاطی تدابیر کیں اور نہ لمبے عرصے تک ویکسین کے پاکستان آنے کے امکانات ہیں تو کیا اب لیڈر اقتدار کی دوڑ میں جلسے کرنا بھی چھوڑ دیں؟ (بشکریہ دنیا)