تحریر: محمود شام۔۔
کتنے خوش قسمت ہیں ہم کہ پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی امت میں پیدا ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ کا کرم ہے کہ ہمیں اپنی زندگی میں ایک اور رمضان دیکھنے اور اس کی نعمتوں۔ رحمتوں۔ برکتوں اور مغفرتوں سے لطف اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ ہم خدائے بزرگ و برتر کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے۔ ہم ایک عالمگیر مذہب کے دائرۂ تسلیم و رضا میں سانس لے رہے ہیں۔ میں تو ایک مدت سے اسلام کی عالمگیریت پر لکھنا چاہ رہا تھا۔ یہ خیال ہمیشہ میرا دامن تھام لیتا ہے۔ جب ہماری مسجد کے امام کسی بیمار کے لیے شفائے کاملہ کی دُعا مانگتے ہوئے یہ جملے ادا کرتے ہیں۔ آپ کی مسجد کے امام بھی یقیناًبیمار بھائی بہنوں کے لیے دُعا میں یہ تلازمات ضرور برتتے ہوں گے۔ کیونکہ یہ اسلام کی روح ہیں۔ کسی بھی بیمار کے لیے شفائے کاملہ کی دعا صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رکھی جاتی۔ امام صاحب پہلے تو یہ اطلاع دیتے ہیں کہ ہمارے فلاں نمازی کے فلاں رشتے دار شدید علیل ہیں۔ ان کے لیے دُعا کیجئے کہ ﷲ تعالیٰ انہیں مکمل صحت سے نوازے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اس محلے میں اس شہر میں جتنے بھی بیمار ہیں۔ وہ ستار وہ غفار انہیں جلد شفا عطا کرے۔ پھر وہ کہتے ہیں۔ وطن عزیز میں جتنے علیل ہیں۔ ان کے لیے بھی دُعا کریں۔ اور آخر میں یہ کہ وہ رحیم وہ کریم امت میں جتنے بیمار ہیں ان کو شفائے کاملہ سے ہمکنار کرے۔ میں نے کبھی انہیں صرف ایک مریض کے لیے دُعا مانگتے نہیں سنا۔
ایک بیمار کی صحت یابی کے لیے دُعا مانگتے ہوئے ہمارے امام ایک آفاقی تصور اختیار کرلیتے ہیں۔ امت کے سب بیماروں کے لیے بلکہ بعض اوقات تمام مریض انسانوں کے لیے دست دُعا بلند کرتے ہیں۔ اسی طرح جب اپنے صغیرہ کبیرہ گناہوں کی توبہ کرتے ہیں تو بھی امت کے سب گنہ گاروں کے لیے بخشش کی فریاد کرتے ہیں۔ اس طرح یہ نماز یں صرف ہمیں اپنے محلے اپنے شہر اپنے صوبے اپنے ملک تک محدود نہیں رکھتیں۔ یہ دُعائیں مانگتے وقت ہم میں سے اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں کلمۂ طیبہ کے ماننے والے لاکھوں کروڑوں اسی طرح سربسجودہوں گے۔اسلام کی اس عالمگیریت کا اعتراف غیر مسلم بھی کرتے ہیں۔ وہ جو عالمی گائوں Global Village کی بات کی جاتی ہے۔ حج بیت ﷲ کے موقع پر منیٰ میں جب دنیا بھر سے عازمین حج قیام کرتے ہیں۔ تو خیموں کا یہ شہر حقیقی معنوں میں عالمی گائوں بن جاتا ہے۔ معلوم دنیا کے کونے کونے سے کتنی ندیاں پہلے دریائوں کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ پھر یہ دریا ایک دوسرے میں ملتے ہوئے اس بحر بیکراں میں آگرتے ہیں۔ جو میدان عرفات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت پر صدیوں سے لبیک کہہ رہا ہے۔
چند روز بعد مختلف نسلوں کی ملاقات سحر و افطار پر روزانہ ہوگی۔ ہم سب ان شاء ﷲ رحمتیں برکتیں سمیٹیں گے۔ افطار کے دستر خوان پر کتنی نعمتیں سجی ہوں گی۔ سحری پر ہر خاندان اپنی استطاعت کے مطابق اپنی روایات اور شعائر کی پاسداری کرے گا۔ جدید دَور کی آن لائن خرید و فروخت نے ہمیں بہت سی حسین روایتوں سے محروم کردیا ہے۔ مجھے تو جھنگ شہر کی سحری نہیں بھولتی ہے۔ لڑکپن میں محلے کی دکان سے دہی لینے جاتے تھے۔ خالی برتن گھر سے لے جانا ہوتا تھا۔پلاسٹک کی تھیلیاں ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ ﷲ بخش صاحب کنالی سے دہی نکال کر میرے برتن میں ڈالتے۔ دہی کی ملائی راستے میں ہی چاٹ لینا ہمارا معمول تھا۔ افطاری مسجد تقویٰ میں نمازیوں کے ساتھ ہوتی تھی۔
دکاندار۔ تاجر ان دنوں ہوس منافع میں اس حد تک مبتلا نہیں تھے۔ اب تو ایک بڑے کاروباری طبقے کیلئے سال میں کمانے کا یہی ایک مہینہ بن گیا ہے۔ حکومتیں رمضان پیکیج کا اعلان کرتی ہیں مگر یہ چینی مافیا۔ آٹا مافیا۔ سبزی مافیا ان پیکیجوں کو مات دے دیتے ہیں۔ روزے دار ایک طرف تو مہنگائی سے لڑتے ہیں۔ دوسری طرف گزشتہ سال سے کورونا کی وبا نے بھی اس ماہ مقدس کی عبادتوں میں خلل ڈالا ہوا ہے۔
رمضان کے نزدیک آتے آتے کورونا کی نئی لہر شدت اختیار کرگئی ہے۔ چند روز سے انتقال کرنے والے ہم وطنوں کی تعداد روزانہ سو سے اوپر ہورہی ہے۔ وہ بحث اپنی جگہ برقرار ہے۔ کورونا ہے بھی یا نہیں۔ پچھلے رمضان میں ہم دُعائیں کررہے تھے کہ ﷲ تعالیٰ انسان کو توفیق دے کہ وہ اس وباکی اکسیر یعنی ویکسین ایجاد کرلے۔ خالق و مالک نے دُعا کو قبولیت بخش دی۔ انسان نے ویکسین تیار کرلی۔ دنیا بھر میں اب یہ انجکشن لگ رہے ہیں۔ اب اس پر بھی تکرار ہورہی ہے کہ ویکسین لگوائی جائے یا نہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مسلمان ممالک بھی اس بیماری پر تحقیق کرتے۔ اس تحقیق کی روشنی میں کوئی مسلمان ملک بھی کوئی دوا دریافت کرتا۔
افسوس۔ ایسا تو نہیں ہوا لیکن یہ مذاکرے، مناظرے زوروں پر ہیں کہ ویکسین کا استعمال ازروئے شرع جائز ہے یا نہیں۔ جس امت کو دوسری سب امتوں پر فوقیت دی گئی۔ وہ سبقت برقرار رکھنے کی بجائے صارف اور محض پیروکار بن کر رہ گئی ہے۔ تحقیق کہہ رہی ہے کہ کووڈ 19کی نئی اقسام بہت زیادہ خطرناک ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہمارے پیارے آٹھ دس روز سخت کرب میں مبتلا رہتے ہیں۔ کہیں یہ وائرس پھیپھڑے گلا دیتا ہے۔ گردے کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ اچھے خاصے توانا۔ تندرست موت کی تاریک وادیوں میں اتر جاتے ہیں۔دنیا بھر میں 13کروڑ سے زیادہ جیتے جاگتے انسان مبتلا رہے ہیں۔ 29لاکھ سے زیادہ اموات ہوچکی ہیں۔ 10کروڑ صحت یاب ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں متاثرین 7لاکھ سے زیادہ اور اموات 15ہزار سے تجاوز کرچکی ہیں۔ امریکہ یورپ کا برا حال ہے۔ داد دینی چاہئے۔ اپنے عظیم دوست ملک چین کو جہاں سے یہ وبا پھوٹی تھی۔ لیکن اس نے سخت پابندیوں اور نظم و ضبط سے وبا کے پھیلائو کو روکا۔ اموات کی تعداد صرف 4636رہی۔ جبکہ امریکہ میں اموات 573856 تک جا پہنچی ہیں۔
رمضان کے مقدس مہینے میں مسجدوں میں نمازوں اور تراویح پر پابندی نہیں عائد کی گئی ہے۔ مگر ہم سب کو خود قواعد و ضوابط پر عمل کرنا ہوگا۔ یہ لہر بہت زیادہ قہر برسارہی ہے۔ بہت زہر لیے گھوم رہی ہے۔ اگر ہم مطلوبہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ ﷲ کے حضور خلوص نیت سے سر بسجدہ ہوں گے تو کچھ پتہ نہیں کہ ہم میں سے کس کی دُعا اور عبادت قبول ہو اور اس کے صدقے امت کو اس وبا سے نجات مل جائے۔(بشکریہ جنگ)۔۔