بلاگ: سید بدرسعید
سر! میں بنیادی طور پر ایک ادیب ہوں ، اخبار کے صفحے کالے کرتا ہوں ،شاعری سے بھی شغف ہے ۔ ڈائجسٹ میں شوق سے لکھتا ہوں ۔ٹی وی چینلز کے اسکرپٹ بھی لکھتا ہوں ۔ مجھے اتنا معلوم ہے کہ آپ کے کسی بھی قسم کے عقیدے یا مذہب سے میرا ایمان خطرے میں نہیں پڑتا ۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ پیدائشی ہندو ہوں ، مسیحی ہوں ، یہودی ہوں ، بدھ ہوں یہا پھر قادیانی ہوں ، یہ آپ کا اپنا مذہب ہے ۔ میرے مذہب میں مرتد کی سزا قتل ہے ۔ یہ میرا اپنے ہم مذہب کے ساتھ معاملہ ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے کسی ملک کی فوج کا کوئی سپاہی دشمن ملک کی فوج کے ساتھ مل جائے تو اسے طے شدہ سزا دی جاتی ہے ۔ آپ نے کبھی میرا مذہب اختیار نہیں کیا تو مذہب ، عبادات وغیرہ کے حوالے سے میں اس وقت تک آپ کی عزت کرتا ہوں جب تک آپ میرے مذہب اور عقائد پر حملہ آور نہیں ہوتے ۔ یہی معاملہ قادیانیوں کے ساتھ ہے ۔ قادیانیوں کی پہلی نسل یعنی بانی چونکہ اسلام سے قادیان مذہب میں گئے لہذا وہ واجب القتل قرار پائے ۔ یہ الگ بات کہ انہیں بھی قتل نہیں کیا گیا ۔ اس کے بعد جو نسل پیدا ہوئی وہ پیدائشی طور پر قادیانی تھی یعنی مسلمان نہیں تھی ۔ اس وقت دنیا بھر میں ایسے تمام قادیانی جو کہ پیدائشی طور پر قادیانی ہیں ان کو میں ایک الگ مذہب کے طور پر جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی انہیں وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کسی اقلیت کو حاصل ہونے چاہئے ۔ میرے خیال میں یہاں تک بات کلیئر ہو جاتی ہے ۔ اب دوسری نقطہ پر آتے ہیں ۔ سر! میں ایک ادیب ہوں ۔ 2011 میں مجھے معلوم ہوا تھا کہ ایک پبلشر نے ایسی کتاب شائع کی ہے جو کہ میری تحقیقاتی رپورٹس پر مشتمل ہے ۔ اس کتاب کے مصنف نے میری متعدد رپورٹس اٹھا کر اپنے نام سے کتاب چھپوا لی تھی۔ اس وقت سابق گورنر پنجاب بیرسٹر شاہد حامد صاحب کی فرم میری لیگل ایڈوائزر تھی سو میں نے پبلشر اور مصنف پر دس لاکھ ہرجانے کا کیس دائر کر دیا تھا۔ سر! میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ایک ادیب کے طور پر میں مارکیٹس میں موجود سیکٹروں کتب کا مطالعہ کرتا ہوں ۔ اس کے مصنفین سے احترام کے ساتھ ملتا ہوں ، ان کی تقریبات میں خوشی سے شریک ہوتا ہوں ، ان کے ساتھ مکالمہ کرتا ہوں ، کھانے کھاتا ہوں اور انہین عزت و احترام دیتا ہوں ۔ کون کتنی کتب لکھتا ہے اس سے مجھے کوئی فرق کیسے پڑ سکتا ہے؟ لیکن جب ایک شخص نے میری رپورٹس اٹھا کر اپنے نام سے شاائع کیا تو یہ میری کاپی رائیٹس کا مسئلہ بن گیا ۔ میں نے اس اس قدر رگڑا کہ آج بھی اردو بازار کے کئی پبلشرز کو یہ داستان یاد ہے ۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو اس سے بطور مسلمان مجھے کیا فرق پڑے گا لیکن جب آپ کسی اور مذہب کو میرے مذیب کے کاپی رائیٹس کے ساتھ چلانے کی کوشش کریں گے تو شدید اختلاف ہو گا ۔ کوئی مسلمان اپنی عبادت گاہ کو چرچ قرار دے اور وہاں اپنی عبادت شروع کر دے ، کوئی سکھ اپنی عبادت گاہ کو مندر قرار دے اور وہاں گورو نانک کی تعلیمات پر عمل شروع کر دے یا کوئی ہندو اپنی عبادت گاہ کو گردوارہ قرار دے کر وہاں کالی ماتا کی مورتیاں سجا لے تو کاپی رائیٹس کا شدید مسئلہ بنے گا۔ قادیانیوں سے بھی کاپی رائیٹس کا اختلاف ہے ۔ وہ خود کو قادیانی قرار دیں اور واضح طور پر کہیں کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ اسلام سے ہٹ کر ایک الگ مذہب کے پیروکار ہیں تو انہیں بطور اقلیت تمام حقوق حاصل ہوتے ہیں لیکن جب وہ یہ کہیں کہ ہم مسلمان ہیں یا اسلام ہمارا مذہب ہے تو پھر کاپی رائیٹس کا جھگڑا شروع ہوتا ہے اور بھائی صاحب کاپی رائیٹس کے جھگڑے میں تو میں نے کتاب چھاپنے والے چور پبلشر کو نہیں چھوڑا تھا یہ تو پھر ایمان کی بات ہے۔ سر! میں ایک ادیب ہوں اور کاپی رائیٹس میرے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے ۔ میں کسی کی تحریر اپنے نام سے نہیں چھپواتا اور کوئی میری تحریر پر قبضہ کرے بتو اسے چھوڑتا نہیں ہوں ۔ باقی سب خیریت ہے ۔ بس کاپی رائیٹس کے اصولوں پر قائم رہیں۔۔۔ (سید بدر سعید)