تحریر: حسن نثار۔۔
کئی سال پرانی بات ہے میں ایک اخبار کا گروپ ایڈیٹر تھا۔ پنڈی لاہور کے بعد مالکان نے میرے منع کرنے کے باوجود فیصل آباد، کراچی کا بھی پنگا لے لیا۔ بےوقت توسیع پسندی نے ادارے کو مالی مشکلات سے دوچار کر دیا تو تنخواہیں ضرورت سے زیادہ لیٹ ہونا شروع ہو گئیں تو کچھ لوگوں نے ترکِ ملازمت کی باتیں شروع کر دیں۔
مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا ’’کوئی متبادل ہے؟‘‘ بولے ’’نہیں‘‘ تو میں نے سمجھایا کہ ’’بیٹا! ’’بے روزگاری‘‘ اور ’’بیکاری‘‘ دو مختلف قسم کی لعنتیں اور عذاب ہیں۔ اس جواں عمری میں گھر بیٹھ کر کیا کرو گے؟ چند روز بعد وقت گزارنا مشکل ہو جائے گا، شریکا علیحدہ طعنے دے گا۔ یہاں آج نہیں تو کل مل تو جائے گی اور تم مین اسٹریم میں بھی رہو گے تو ممکن ہے کہیں سے کوئی آفر بھی آ جائے‘‘۔ میں نے اُنہیں انگریزی کے ایک گھسے پٹے محاورہ کے علاوہ شعر بھی سنایا۔محاورہ واقعی بہت گھسا پٹا تھا کہ ’’بیکار فارغ آدمی کا دماغ شیطان کی ورکشاپ ہوتا ہے‘‘ اور شعر کچھ یوں تھاسب سے مشکل کام تو یہ ہے کیسے ڈھونڈیں کام گلیوں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں بدنام اس حقیقت پر مبنی تمہید میں چند لفظ بیحد کلیدی اور قیمتی ہیں۔
دیوانی جوانی کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ پڑھی لکھی، نیم پڑھی لکھی، مکمل طور پر اَن پڑھ، نیم ہنرمند، ہنرمند اور کسی بھی ہنر سے پیدل جس کے تمام تر اعضاء عین شباب پر ہوتے ہیں۔منیر نیازی جیسا بےمثال بھی یہ کہہ گیاکتابِ زیست کا اک اور باب ختم ہواشباب ختم ہوا، اک عذاب ختم ہواذرا اندازہ لگائیں جسے منیر جیسا ماہِ کامل بھی ’’عذاب‘‘ لکھ رہا ہے وہ بےکاری اور بےروزگاری میں کیسا اور کتنا بڑا، بھیانک عذاب ہوتا ہوگا۔عدیم ہاشمی جیسے عدیم المثال نے اس المیہ کو اپنے انداز میں یوں بیان کیا ہےیوں دبائے جا رہا ہوں خواہشیںجیسے اک عہد جوانی اور ہےجوانی جیسی جوالا مکھی اور جوار بھاٹا کو عدیم کی طرح ’’دبانے‘‘ کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی اس کے لئے آئوٹ لٹ، کتھارسس، گرومنگ کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ یہ کوئی نہ کہتا کہ بیکار جوانی اور جرائم میں اک خاص رشتہ ہے لیکن یہ باریک باتیں ان موٹے دماغوں میں نہیں سمائیں گی جن کے سروں پر تاج اور پگڑ دھرے ہوتے ہیں۔
جیسے جیسے مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے بیکاری، بےروزگاری، فرسٹریشن، سفوکیشن، وحشت اور غصہ میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ رہی سہی کسر میڈیا پوری کئے دیتا ہے۔ ایک اندر آپس کی عجیب سی بات آپ کے ساتھ شیئر کروں۔ مدت ہوئی ٹی وی تو جھونپڑیوں تک بھی پہنچ چکا۔ جب کبھی مختلف ٹی وی چینلز پر ’’کوکنگ شوز‘‘ پر نظر پڑتی ہے، میں بےچین سا ہو کر سوچتا ہوں کہ جن کروڑوں کے گھروں میں دو وقت کی روٹی مسئلہ بنی ہوئی ہے وہ ان کوکنگ شوز کو دیکھ کر کیا سوچتے ہوں گے؟ کیسا محسوس کرتے ہوں گے؟ ان کے جذبات و احساسات کا کیا عالم ہوگا؟ انہوں نے تو نہ کبھی ایسے کچن دیکھے ہوں گے، نہ ان ڈشز کے نام سنے ہوں گے جن پر ’’لذت‘‘ کی اداکاری عروج پر ہوتی ہے۔
دلوں پر چھریاں چلتی ہوں گی، دماغوں پر ہتھوڑے برستے ہوں گے جبکہ صدیوں پہلے سرکار نے فرمایا تھا کہ پھل کھا کر چھلکے باہر نہ پھینکو تاکہ پڑوسی کے بچوں میں احساس محرومی پیدا نہ ہو کہ یہ احساس کچھ اور سماجی رویوں کو بھی جنم دے سکتا ہے۔پاکستان میں جوانی المعروف ’’یوتھ‘‘ کا بڑا چرچا اور رولا ہے اور طاقت کے ان سرچشموں کی تعداد ہماری کل آبادی کا تقریباً 64فیصد بنتا ہے تو سچی بات ہے ’’الامان الحفیظ‘‘ کا ورد کئے بغیر گزارا نہیں۔۔ اک اور بھیانک مرض وائٹ کالر جاب بلکہ سرکاری نوکری کی تلاش ہے کیونکہ سمجھانے بتانے والا ہی کوئی نہیں کہ کام صرف کام ہوتا ہے اور ذاتی کام کہیں زیادہ باعزت، باوقار اور بامنافع ہوتا ہے۔ چاہے کھوکھا اور ریڑھی ہی کیوں نہ ہو اور یہ ’’تعلیم‘‘ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ریاست کو تو قرضے ہی دم نہیں لینے دے رہے۔ باقی کسر اندر کے کلاکار پوری کر رہے ہیں۔(بشکریہ جنگ)۔۔