تحریر: عمیرعلی انجم
یوم مئی شگاگو کے ان مزدروں کی یاد دلاتا ہے جو اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے ظالموں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے ۔ا س واقعہ کو اب کئی برس بیت چکے ہیں لیکن دنیا بھر کے مزدور اپنے ان ساتھیوں کو نہیں بھولے ہیں جنہوںنے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر ثابت کیا تھا کہ ظالموں کے سامنے ڈٹ جانا ہی ہے اصل فتح ہے ۔بقول فیض احمد فیض ”جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے ۔۔یہ جان تو آنی جانی چیز ہے ،اس جان کی تو کوئی بات نہیں ۔۔شگاگو کے مزدوروں کو لے کر یوم مئی پر جہاں دیگر مزدور تنظیمیں مختلف پروگرامز کرتی ہیں وہیں ہماری صحافتی تنظیمیں بھی میدان میں نکل آتی ہیں ۔۔میرا مسئلہ صحافتی تنظیمیں نہیں ان کے رہنما ہیں ۔۔اب آپ خود سوچیں جب یہ عظیم رہنما یکم مئی کو اپنی چمچاتی ٹھنڈی گاڑیوں سے نکل کر ایک یخ بستہ ہال میں کسی کنونشن سے مزدروں خصوصاً صحافیوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی بھاشن دے رہے ہوں گے تواسی وقت کوئی بے روزگار صحافی آنے والے ماہ مقدس کا سوچ رہا ہوگا اور اس کو ہول اٹھ رہے ہوں گے کہ وہ آخر کس طرح اس مہینے میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھ سکے گا ۔۔ لیڈر کنونشن میں خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے ہوں گے کہ ہم نے کشتیاں جلادی ہیں اور اب صحافیوں کے حق پر کوئی ڈاکہ نہیں ڈال سکتا ۔۔اور بے روزگار صحافی سوچ رہا ہوگا کہ ”کتنے تلخ ہیں بندہ مزدور کے اوقات ” لیڈر کہہ رہے ہوں گے کہ اب ہم کسی کو صحافیوں کا استحصال نہیں کرنے دیں گے اور غریب صحافی سوچ رہا ہوگا کہ کیوں نہ رمضان المبار ک میں گھر والوں کو کسی رشتہ دار کے گھر بھیج دیا جائے کیونکہ اس کا منہ اس قابل رہا ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کا سامنا کرسکے ۔۔عظیم رہنما اپنے خطاب میں کہہ رہے ہوں گے کہ ہم میڈیا مالکان کو متنبہ کرتے ہیںکہ وہ لوگوں کو بے روزگار کرنے کا سلسلہ بند کریں اور ان کی بروقت تنخواہوں کی ادائیگی یقینی بنائیں اور ایک مظلوم صحافی سوچ رہا ہوگا کہ جتنے جاننے والے ہیں ان سب سے قرض لے چکا ہے گھر والوں کو اگر کسی رشتہ دار کے ہا ں کسی دوسرے شہر بھیجنا ہی پڑا تو کرایہ کے پیسے کہاں سے آئیں گے ۔۔عظیم رہنما جوش خطابت میں کہہ رہے ہوں گے کہ ”ہم صبح پرستوں کی یہ ریت پرانی ہے ۔۔ہاتھوں میں قلم رکھنا یا ہاتھ قلم رکھنا ” اور بے کس صحافی سوچ رہا ہوگا کہ یہ شب اتنی طویل کس طرح ہوگئی ہے ۔۔آخر صبح کب ہوگی ۔۔عظیم رہنماؤں کے کنونشنز چل رہے ہوں گے اور غریب صحافی کے فاقے ۔۔کنونشنز سے فاقوں تک کا جو فاصلہ ہے ۔۔وہ کسی کی سمجھ سے باہر نہیں ہے ۔۔عظیم رہنما رمضان المبارک میں دعوت شیراز کے انعقاد کے لیے سرگرم ہیں اور غریب صحافی دو وقت کی روٹی کے لیے رل رہا ہے ۔۔عظیم رہنما نے یخ بستہ ہال میں اپنا خطاب ختم کیا اور ایک مرتبہ پھر ٹھنڈی گاڑی میں سوار ہوگیا ۔ گھر پہنچا اپنے اے سی والے کمرے میں گیا ۔۔سگریٹ سلگایا اور ایک گالی نکالتے ہوئے کہا کہ بھاڑ میں گئے شگاگو کے مزدور پورا دن خراب کردیا ۔ ادھر بے روزگار صحافی نے گرمی کی وجہ سے اپنی ٹوٹی ہوئی چارپائی سے تکیہ اٹھایا اور چھت پر چلا گیا ۔۔۔بھوکے پیٹ تارے گنتے ہوئے اس نے بھی گالی دی اور بے ساختہ کہا کہ بھاڑمیں گئے عظیم رہنما ۔۔۔۔پوری زندگی برباد کردی۔۔اورکچھ ناملا۔۔(عمیر علی انجم)