تحریر: میاں زاہد اسلام
سینئر صحافی علی رحمانی کی کہانی ایک ایسے عزم و حوصلے کی عکاس ہے جس نے انہیں صحافت کی دنیا میں قدم رکھنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے صحافت کے پیشے کا انتخاب اس امید، یقین اور ولولے کے ساتھ کیا کہ وہ اپنی محنت اور سچائی کی بنیاد پر صحافت میں اپنا نام پیدا کریں گے اور معاشرے کے حقائق کو سامنے لائیں گے۔
مگر پاکستان کی موجودہ صحافتی دنیا میں ان کی امیدوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ آج کے دور میں صحافت کی حقیقی روح کہیں گم ہوتی نظر آتی ہے، جہاں تمام میڈیا ہاؤسز کسی نہ کسی شکل میں حکومتی دباؤ یا مفادات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ سیاست دان، لینڈ مافیا، اسٹیبلیشمنٹ اور بزنس فنوں نے پورے میڈیا اداروں پر قبضہ جما لیا ہے، جو صحافیوں کی جوب تنخواہوں اور ان کے روزگار کا فیصلہ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے صحافت آزاد نہیں رہی۔
علی رحمانی کا تجربہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہاں آزاد صحافت کے بجائے کنٹرولڈ صحافت کا رواج ہے، جہاں سچائی اور غیرجانبداری کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ علی رحمانی کا کہنا ہے کہ وہ دل گرفتہ ہیں کیونکہ وہ اس پیشے میں اس امید کے ساتھ آئے تھے کہ وہ غیرجانبدار اور جرأت مندانہ صحافت کر سکیں گے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ میڈیا کے حالات نے ان کے اصولوں اور خوابوں کو محدود کر دیا ہے۔ وہ اپنی صحافت کو محض روٹی روزی کا ذریعہ بنا کر کام کر رہے ہیں، جبکہ ان کی سوچ اور آواز ایک قید کی مانند ہے جسے وہ روزانہ محسوس کرتے ہیں۔
یہ داستان ان تمام افراد کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے جو صحافت کی دنیا میں قدم رکھنے کا خواب دیکھتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کنٹرولڈ صحافت کی زنجیروں کو کیسے توڑا جائے اور کس طرح صحافت کی اصل روح کو زندہ رکھا جائے تاکہ سچائی، غیرجانبداری اور جرأت پر مبنی صحافت کا احیاء ممکن ہو سکے۔ علی رحمانی جیسے صحافیوں کی کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اصل تبدیلی کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ ہے۔(میاں زاہد اسلام)۔۔