تحریر: سید عارف نوناری۔۔
پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو سوشل میڈیا نے بہت دور چھوڑ دیا ہے اور اب حکومت کے بارے میں رائے عامہ منفی یامثبت کرنے میں سوشل میڈیا کر کردار بہت اہم ہو گیا ہے ۔اب خبر یا انفارمیشن کے پھیلاو میں چند سکینڈ لگتے ہیں اور خبر پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے حالیہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے مضبوط سوشل میڈیا ونگ نے وہ کر دکھایا کہ پوری دنیا پریشان ہوگئی ، تجزیے و تبصرے ہوتے رہے اور ابھی تک ہو رہے ہیں۔ اب ریاستی ادارے سر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ پاکستان میں سوشل میڈیا کو کیسے کنڑول میں رکھا جائے اس کیلئےبہت سی تجاویر زیر غور ہیں ۔ سماجی رابطوں کی سائٹس پرمذہبی انتشار پھیلانے اور منفی سرگرمیوں میں مصروف 462سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کردیئے گئےہیں ۔پولیس کے انسداد انتہا پسندی یونٹ نے سوشل میڈیا پر مذہبی، مسلکی، لسانی منافرت پھیلانے والے 462اکاؤنٹس کو اسلام آباد پولیس کے انسداد انتہا پسندی یونٹ کے ذریعے بند کروایادیا ہے۔ اس حوالے سے منفی سرگرمیوںمیں ملوث 522 اکاؤنٹس کی نشاندہی کرتے ہوئے بندش کیلئے ایف آئی اے کو خط بھی لکھا گیا تھا۔بند ہونے والے اکاؤنٹس میں 65مذہبی، 47ملک کے خلاف پروپیگنڈا کرنے اور 350اکاؤنٹس دہشت گردانہ مواد پھیلانے میں ملوث تھے، باقی 1060 اکاؤنٹس کو بھی جلد بند کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔ انتہا پسندی کی روک تھام سے دہشت گردی کے تدارک اور شہر کی سکیورٹی کو مؤثر بنانے میں مدد مل رہی ہے، عوام سے بھی اپیل کی دی گئی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ایسی منفی سرگرمیوں سےدور رہیں، اس میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لانے کیلئے اقدامات کیے جا رہے ہیں ۔ سماجی رابطوں کی سائٹس پر مختلف اکاؤنٹس کے صارفین کی جانب سے منفی پوسٹوں کے ذریعے عوام میں اشتعال انگیزی پھیلائی جارہی ہے تواشتعال پسند عناصر کے خلاف بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تاکہ وہ منفی اور غلط پروپیگنڈا سے باز آ جائیں، کچھ پاکستانی بیرون ملک بیٹھ کر فیس بک ‘،ٹویٹر،یوٹیوب اور انسٹاگرام پر ویڈیوز شیئر کرتے ہیں اور سیاسی جماعتوں ‘عدلیہ ‘حکومت اورافواج پاکستان کےمتعلق منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں ان کی روک تھام اور ان اکاونٹس کو بند کرنے کیلئے بھی منصوبہ بندی ضروری ہے کیونکہ ملک کی سالمیت اولین ترجیح ہے اور سوشل میڈیا ایک ایسا ٹول ہے جس کا دائر کار پوری دنیا پر محیط ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی سوشل میڈیا پر کنٹرول پر روز دیا ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال بری چیز نہیں، سوشل میڈیا بذات خود برا ٹول نہیں موبائل کی وجہ سے پاکستان میں آہستہ آہستہ اس کے استعمال میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کیلئے منسٹری انفارمیشن آگاہی مہم چلائے تاکہ پڑھے لکھے اور نوجوان طبقے میں اس کے منفی رجحانات کے استعمال میں کمی لائی جا سکے حال ہی میںا قوام متحدہ نے دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہےتاکہ بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہو سکے اور وہ آن لائن خرافات سے بچ سکیں۔ اقوام متحدہ کے تعلیم،سائنس اور ثقافت کے ادارے یونیسکو کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیاکہ ایسے شواہد موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موبائل فونز کا بہت زیادہ استعمال تعلیمی کارکردگی کو متاثر کرتا ہے۔ موبائل فونز پر زیادہ وقت گزارنے سے بچوں کے جذباتی استحکام پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا کہ اسکولوں میں اسمارٹ فونز لے جانے پر پابندی عائد کی جائے تاکہ یہ پیغام دیا جاسکے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی انسانی تعلیم کیلئے معاون سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یونیسکو نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے اثرات سے خبردار کیا کہ اس کے سیکھنے اور معاشی افادیت کے حوالے سے مثبت اثرات کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے،رپورٹ میں کہا گیاکہ ہر تبدیلی کو پیشرفت نہیں قرار دیا جا سکتا ، ہر نئی چیز ہمیشہ بہتر نہیں ہوتی۔عالمی ادارے کے مطابق ڈیجیٹل انقلاب میں متعدد مواقع چھپے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات پر بھی بات کی جا رہی ہے، ایسی ہی توجہ تعلیم کے شعبے پر بھی مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔یونیسکو کا خیال ہےکہ ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھنے کے تجربے کو بہتر بنانے اور طالبعلموں اوراساتذہ کی بہتری کیلئے ہونا چاہیے، مگر سب سے پہلے سیکھنے والوں پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔، آن لائن رابطے انسانی تعلقات کا متبادل نہیں ہو سکتے دنیا بھر کے ممالک کو تعلیمی شعبے میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو مفید بنانے اور اسکے نقصانات سے بچنے کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔رپورٹ میں بین الاقوامی ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیاکہ اسکولوں اور گھروں میں اسمارٹ فونز، ٹیبلیٹس یا لیپ ٹاپس کا بہت زیادہ استعمال طالبعلموں کی توجہ بھٹکانے کا باعث بنتا ہے جس کے باعث انکی سیکھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔دنیا بھر کے 200تعلیمی نظاموں کے تجزیے کے حوالے سے یونیسکو نے رپورٹ دی کہ ہر 6میں سے ایک ملک نے اسکولوں میں اسمارٹ فونز پر پابندی عائد کی ہے اس طرح کے اقدامات پاکستان میں بھی ممکن ہیں۔ گوگل جدید ٹیکنالوجی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اب یہ صارفین کا بھی فر ض ہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی جسے ہم سوشل میڈیا بھی کہتے ہیں ،وی لاگرز اور اس سے متعلقہ دیگرافراد مثبت سوچ اور تحقیق کے بعد کسی خبر یا انفارمیشن کو عوام تک لیکر جائیں یوٹیوبرز بھی سٹوریز کو عوام تک لیکر جانے میں جو ذمہ داری ان کو پوری کرنی چاہیے پوری نہیں کر پاتے ہیں ،پاکستانی حکومت سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے سلسلے میں انتہائی پریشان اور تشویش کی حالت ہے اور اس ذریعہ اطلاعات کو لگام کیسے ڈالے اس پر حکمت عملی بنانے میں مصروف ہے کیونکہ غلط اطلاعات تیزی سے پھیلتی جا رہی ہیں اور سب سے زیادہ اس کا نشانہ عدلیہ ،ریاستی ادارے ،حکومت اور افواج پاکستان بن رہے ہیں۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔