pathar se keeray ka rizq

کالم نگاروں کی مارکیٹ

تحریر: یاسر پیرزادہ۔۔

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب میں نے اخبار میں کالم لکھنا شروع نہیں کیا تھا مگر میں کالم نگاروں سے بہت مرعوب تھا، یہ انٹر نیٹ سے پہلے کا وقت تھا ، اُس وقت جن لوگوں کے کالم اخبار میں شائع ہوا کرتے تھے اُن میں سے اکثر نہایت فخر سے لکھا کرتے تھے کہ اُن کے فلاں کالم کے رد عمل میں اخبار کے دفتر میں اتنی زیادہ تعداد میں خطوط وصول ہوئے کہ مدیر کو بوری میں بند کرکے کالم نگار کے گھر بھجوانے پڑے ۔ہم اُس وقت خاصے معصوم ہوا کرتے تھے (اب بھی ہیں، آزمائش شرط ہے) ، اِن باتوں کو پڑھ کر یقین کر لیاکرتے تھے ، ویسے بھی انسان کاغذ پر چھپی ہوئی بات کو خواہ مخواہ مستند سمجھ لیتا ہے چاہے اُس کاغذ پر بنگالی جادوگر کا اشتہار ہی کیوں نہ چھپا ہو!خیر، مجھے اِس بات میں کوئی شک نہ ہوتا اگریہ بلند بانگ دعویٰ کرنے والوں میں وہ لکھاری شامل نہ ہوتے جن کا کالم پڑھنا ایک اذیت ہوتی تھی اور اسی لیے میں نے یہ اذیت ناک کام انجام دینے والے کو پانچ سو روپے دینے کا اعلان کر رکھا تھا،یہ انعامی رقم آج کی تاریخ تک کوئی نہیں جیت سکا۔پھر وقت بدلا اور ای میل کا دور آ گیا، انٹر نیٹ اب بھی خال خال ہی تھا، لیکن پھر ہمارے اِن محبوب کالم نگاروں نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ اُن کے گزشتہ کالم نے اندرون و بیرون ملک اِس قدر تہلکہ مچایا اور قارئین کی ای میلز اتنی بڑی تعداد میں موصول ہوئیں کہ اُن کا ای میل اکاؤنٹ ہیChoke ہوگیا، بولے تو اُس کا دَم گھُٹ گیا ۔ آپ میں سے جن لوگوں کو اِس بات میں غلو کا شائبہ ہو رہا ہو اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ یہ باتیں اِس خاکسارنے خود کالموں میں پڑھی ہیں۔اب ایک دودھ پیتا بچہ بھی جانتا ہے کہ اگر آپ کو ایک دن میں دس ہزار ای میلز بھی موصول ہوجائیں تواُن سے اکاؤنٹ نہیں ’بھرسکتا‘ کیونکہ ای میل اکاؤنٹ میں کئی گیگا بائٹ کی گنجائش ہوتی ہے ۔لیکن کوئی بات نہیں ، جو مزاجِ یار میں آئے!

جب سے سوشل میڈیا وارد ہوا ہے تب سے ہمارے محبوب کالم نگاروں نے اپنی کالموں کی شہرت کے دعوے کرنے ترک کردیے ہیں، اور اُس کی وجہ نہایت سادہ ہے، سوشل میڈیا نے ہر بندے کو بے نقاب کردیا ہے ،کون کتنا پڑھا جاتا ہے، کس شخص کے کتنے پیروکار (بولے تو ’فالوورز) ہیں ، سب کھلی کتاب کی طرح سامنے ہے ۔ اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ میرے پرستاروں کی ای میلز کی وجہ سےمیرا اکاؤنٹ ہی بھر گیا، کیونکہ پرستاروں کی رائے اب سوشل میڈیا پر آ جاتی ہے اور پتا چل جاتا ہے کہ بندہ کتنے پانی میں ہے۔البتہ کچھ کائیاں قسم کے لوگ اب بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنی بڑائی بیان کرنے کے نئے طریقے ایجاد کر لیے ہیں ۔مثلاً میں جب گھر سے نکلا تو سامنے سے ایک جلوس آرہا تھا، اُن لوگوں کے ہاتھ میں لاٹھیاں تھیں ، انہوں نے میری گاڑی روک لی،اِس سے پہلے کہ وہ میری گاڑی کو آگ لگا دیتے ، جلوس میں موجود کئی افرادنے مجھے پہچان لیا اور پھر آناً فاناً میری گاڑی کو نکل جانے کا راستہ دے دیا، بعد میں کسی حاسد نے یہ افواہ اُڑا دی کہ مجھے پہچاننے والے دراصل وہ لوگ تھے جن کے میں نے پیسے دینے تھے۔دوسرا طریقہ، اکثر جب لوگ مجھے کسی کانفرنس میں اظہار خیال کے لیے مدعو کرتے ہیں تو وہاں مجھ سے ایک ہی سوال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے مسائل کا حل کیا ہے ، لیکن گزشتہ روز عجیب بات ہوئی ، میں ایک کھانے پر مدعو تھا، وہاں سب لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور پوچھنے لگے کہ آپ گوناں گوں مسائل پر لکھتے ہیں، قوم کی نبض پر آپ کا ہاتھ ہے ،یہ بتائیں کہ خالص دیسی گھی کہاں سے ملتا ہے!ایک تیسرا طریقہ بھی ہے اور اِس طریقے کا موجد آپ کا یہ خادم ہے۔گزشتہ دنوں خاکسار نے کالم لکھاکہ جدید مغربی دنیا میں جنس کی تخصیص فقط مرد اور عورت کے طور پر نہیں کی جاتی بلکہ اب سولہ مختلف طریقو ں سے آپ اپنی جنس کا اظہار کرسکتے ہیں ، حاصل کالم یہ تھا کہ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو نہ جانے بات کہاں جا کرتھمے گی جبکہ کسی بھی شخص کو دیکھ کر آسانی سے بتایا جا سکتا ہے کہ مرد ہے یا عورت۔ اللّٰہ کی شان دیکھیں، جس دن یہ کالم شائع ہوا ،اُس سے اگلے روز برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے یہی باتیں دہرا دیں۔اب اِس تیسرے طریقے کو بروئے کار لاتے ہوئے میرا ارادہ ایک اور کالم لکھنے کا ہے جس میں بتاؤں گا کہ کیسے دنیا کے لیڈر میرے کالموں کا بغور مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اُس سے رہنمائی حاصل کرکے اپنی تقریروں کو چار چاند لگاتے ہیں۔میں یہ بھی بتاؤں گا کہ پاکستان میں برطانوی سفارت خانہ اِس کام پر مامور ہے کہ وہ میرے کالموں کا انگریزی ترجمہ کرکے روزانہ رشی سونک کو ای میل کرے۔کون مائی کا لال ہوگا جو اِس کی تردید کرنے کی جرات کرے گا!

کہتے ہیں کہ برطانوی دورِ حکومت میں مولانا ظفر علی خان کے صاحبزادےنے انگریز سرکار کی پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے چتاؤنی دی تھی کہ اگر حکومت نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہ کی تو انہیں مجبوراً تاج برطانیہ کے خلاف زمیندار میں اداریہ لکھنا پڑے گا۔میرا خیال ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ میں بھی اب برطانوی حکومت کو چتاؤنی دوں کہ اگر اُس نے بھارت نواز پالیسیاں ترک نہ کیں تو مجبوراً مجھے رشی سونک کے خلاف کالم لکھنا پڑے گا۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئ۔۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں