تحریر: فرزانہ صدیق
کہانی شروع ہوتی ہے… ایک روز سٹی فورٹی ون کے سینئر رپورٹر رمضان مرزا کیمرہ مین عثمان کے ساتھ معمول کی کوریج پہ لاری اڈا مصروف تھے, کہ چند مسافروں نے کیمرے کو اپنا دوا دارو جانا, اور رونا رویا کہ صنعتی شہر میں روزی کمانے آئے ہیں, ہر مہینے بعد گھر جانا ہوتا ہے, کم تنخواہ پہ نوکری کر کے ,سیلانی کے کھانے کھا کر, فٹ پاتھ پہ سو کے اہلخانہ کے لیے زیادہ سے زیادہ بچت کر کے.. پیسے جیب میں ڈالے گھر جانے کے لیے لاری اڈوں کا رخ کرتے ہیں تو وہاں موجود لاری اڈا پہ بنی پولیس چوکی کے رشوت خور اہلکار انہیں ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں, تلاشی کے بہانے بچوں کے لیے خریدے گئے کھلونے,سیل سے لئے گئے نئے کپڑے جوتے (جنہین یہ سوچ سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ جب بچوں کو ذہن گے تو ان کے چہرے پہ کیا خوشی ہو گئ) کسی اہلکار کو اپنے بچے کے لئے وہ پسند آجائے تو نکال لیتے ہیں, جیب میں پیسے بھی سلامت نہیں رہتے.. کس کے پاس جائیں, خدا کا واسطہ مدد کرو.. جس پہ رپورٹر اور کیمرہ مین نے اپنی اسائنمنٹ چھوڑ کر کیمرے کا رخ انکی طرف کر لیا.. غریب مزدوروں کی فریاد نے انکا دل پگھلا دیا..کیمرہ مین جب ان کالی بھیڑوں کے کالے کرتوت کی فوٹیج میں مصروف تھا تو اچانک ایک اہلکار کی نظر پڑ گئی, بس پھر کیا تھا..
دو نہتے میڈیا ورکر, کبھی کیمرہ بچاتے تو کبھی عزت, اور انکی لاتیں گھونسے, کیمرہ توڑا موبائل چھینے اور گریبان سے گھیسٹتے ہوئے لاری اڈا چوکی لے گئے,,محرر ایک ہی زعم میں رہا.. ارے تم لوگوں کی اتنی جرات کہ سیکرٹری بار شاہد منیر کے بھائی پہ ہاتھ ڈالو… لوگ اکھٹے ہوئے سٹی فورٹی ون کی ٹیم کو اطلاع ملی… سب بھاگم بھاگ پہنچے. ,میں ایک مدت بعد جناح گارڈن میں واک کے بعد اپنی دوست شائستہ شیخ کے ساتھ وہاں سے ملحقہ ریسٹورنٹ پہ کھانے کے آرڈر کے آنے کے انتظار میں تھی, ادھر سے اطلاع ملی, ادھر سے کھانا سامنے آ گیا, پانی کا گھونٹ بھرا, کھانے کو حسرت بھری بھوکی نگاہ سے دیکھا, برستی بارش میں لاری اڈا پہنچ گئی, میرے پہچنے سے قبل ہی میرے سارے کولیگز اور ہمارے سینئر کرائم رپورٹر طیب مقبول وہاں پہنچ چکے تھے, ایس پی ڈی ایس پی بھی آگیے, لائیو بیپر ہوئے بحث و مباحثہ قصہ مختصر ہمارے کیمرے میں ساری فوٹیجز موجود تھیں. شواہد تھے, ترازو میں تولے گئے ,سچ کا پلڑا بھاری رہا, ہماری جیت ہوئی, اور اس کرپٹ محرر کو معطل کروا دیا.. اور خوش باش دفتر آ گئے لیکن۔۔
کہانی ختم نہیں ہویی, سیکرٹری بار شاہد منیر خود کو خدا سمجھ بیٹھا, اسکی توہین ہوئی,, اسکا بھائی معطل ہوا. اسنے اوچھے ہتھکنڈے اپنانے کا سوچا, چند روز بعد سٹی فورٹی ون کے دو کرائم رپورٹرز علی رضا, طیب مقبول کیمرہ مین وقاص کے ہمراہ ایس پی لائلپور ٹاؤن کے آفس موجود تھے کہ وکلاء کا جھتہ آیا انہیں اغواء کیا اور بار میں لے گئے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا… (ارے نامردو اتنی جرات تھی تو وہیں مقابلہ کرتے نا..) میں ایس ایس پی آپریشن آفس کے پاس موجود تھی.. مجھے اطلاع ملی.. میں بھاگم بھاگ پہنچ گیی,
علی رضا کے سر سے بہتا لہو.. میرے میرے حواس معطل کر گیا.. علی.. خود کو بڑا حوصلہ مند ثابت کر کے بے اختیاری میں اسکے پھٹے سر کو چھوا… علی.. کیا ہوا… میڈم.. میڈم میں ٹھیک ہوں.. طیب بھائی اندر ہیں.. وہ انہیں مار رہے ہیں… میڈم.. کچھ کریں… خدا جانتا ہے..مجھے لگا.. میں زمین پہ گر جاؤں گی.. کیونکہ کالے کوٹ والون کے کالے کرتوتوں کا بخوبی اندازہ ہے مجھے. پریس کلب کے صحافی بھی اکھٹے ہونا شروع ہو گئے.. میں موبائل کا کوڈ بھول گئی,, میں نے ایس پی آفس کی طرف دوڑ لگا دی, اپنے ہی دوپٹے میں اٹک کے دو دفعہ گری, لیکن اس کالے گیٹ کے اندر جو ڈسٹرکٹ بار کہلاتی ہے.. طیب بھائی پہ تشدد ہو رہا تھا.. پَھر اٹھی.. پھر بھاگی.. ایس پی آفس کے دفتر کے اندر سیدھا.. سر.. جلدی کریں انہوں نے طیب بھائی کو یرغمال بنایا ہوا ہے.. انہیں مار رہے ہیں.. جلدی اٹھیں.. انہیں اٹھایا.. ڈی ایس پی پولیس.. پہنچی.. مجھے نہیں یاد.. اس کالے گیٹ کے باہر بے بسی میں,, میں نے کتنے نعرے لگائے گالیاں دیں.. اور کہا کہ او ہیجڑو.. دروازہ کھولو… طیب بھائی کو باہر نکالو.. پولیس پاس کھڑی دیکھتی رہی,مجھے نہیں یاد… وہی بتاتے ہیں کہ میں نے پولیس اور وکلاء کو گندی ترین گالیاں دیں,, میڈیا متحد ہوا..ہمارے سٹاف,باس سمیت تمام میڈیا پہنچا, احتجاج ہوا, لائیو بیپر ہوئے, پولیس جا کے بار سے طیب بھائی کو زخمی حالت میں نکال لائی, مقدمہ درج ہوا… رات ڈھلی اود ہم گھروں کو ا گئے…
لیکن دل… روح بے چین ہے… مجھے جواب چاہئے… حساب چائیے اپنی بے بسی کا.. ان آنسوؤں کا جو آنکھوں سے نہیں نکلے, گولہ بن کے دل پہ بوجھ بن گئے , ایک طرف علی کے سر سے بہتا لہو اور دوسری طرف کالے گیٹ کے اندر یرغمال بنے طیب بھائی پر تشدد, اور میں اپنے ساتھیوں کے انتظار میں سڑک کے بیچوں بیچ نعرے لگاتی, تو کبھی گالیاں دیتی کبھی گیٹ کو بے بسی سے بجاتی… میرے دل پہ جو گزری…سو گزری ..لیکن طیب بھائی اور علی رضا کو وقاص کو فٹ بال سمجھ کے سڑک پہ پھینکا… ٹھڈے مارے, انہیں نوچا… اور کہا گیاکان پکڑو… معافی مانگو… میرے بھائی کو معطل کروایا, اب بھگتو,,, مجھے انکی تکلیف کا بھی حساب چائیے.. لیکن یہ جواب بھی چاہیے کہ کالے کوٹ میں پڑھا لکھا یہ طبقہ… جو عدالتوں میں عام شہریوں کے لیے انصاف لینے جاتے ہیں خود بھی کالی بھیڑوں سے بھرا ہوا ہے.. انہیں نا شرم ہے نا حیا, نا ہی اپنے پروفیشن کا خیال… ان کا بھی حساب چائیے,, انکا جو دل کرے گا کریں گے؟؟؟کسی کو بھی پیٹ ڈالیں گے؟کویی ان سے نہیں پوچھے گا؟پولیس بھی ان سے خوفزدہ رہے گی… ؟یہ کالی بھیڑیں..کھا جائیں گی… ہم سب کو کھا جائیں گی.. لیکن.. میں اب لڑوں گی… ان کالی بھیڑوں کے لیے لڑوں گی… خواہ وہ سیکرٹری بار ہے یا صدر بار ہے.. یا کوئی بھی عہدیدار.. میں اس طبقے کو یقین دلاتی ہوں.. میں ان چند کالی بھیڑوں کے گریبان ضرور پکڑوں گی… آپ میرا بار کا لائسنس معطل کروا دیں گے.. بار میں داخلہ بند کر دیں گے؟؟؟
میں خدا کی قسم انہیں آپکی بارکے سامنے جلا دوں گی… اور آپ کے سامنے آکر جنگ کروں گی.. یہ نہتی لڑکی آپکو خبردار کرتی ہے..وارن کرتی ہے… اور یہ جنگ میں آپکی طرح ڈر کے نہیں, ہیجڑا بن کے نہیں, چھپ کے نہیں سامنے آ کر لڑوں گی.. قلم سے لڑوں گی… میں تمام کالی بھیڑوں کو عیاں کروں گی.. تیار رہئیے۔۔
انشاءاللہ..اور میں سب شواہد کے ساتھ کروں گی… کون کس سے کتبے پیسوں میں انصاف خریدتا ہے… اپنی سیٹ کا استعمال کہاں کہاں کرتا ہے… کون کالے کوٹ میں چھپا گندے دھندے میں ملوث ہے.. ایک ایک کر کے سب سامنے آئیں گے.. تیار رہیں۔۔(فرزانہ صدیق،کرائم رپورٹر سٹی فورٹی ون فیصل آباد)۔۔
(زیرنظرتحریر فرزانہ صدیق کی فیس بک وال سے لی گئی ہے، واقعہ چونکہ افسوسناک تھا اور جس چینل کے کارکنان تشدد کا نشانہ بنے اسی کی خاتون رپورٹر نے آنکھوں دیکھا حال لکھ ڈالا، جسے اپنے عام قارئین کی خدمت میں پیش کیاجارہا ہے۔۔عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)