تحریر: ذکریا محی الدین۔۔
وہی مظلوم عورت دیکھنےکو ملتا ہے۔۔شراب اور سگریٹ پیتی پاکستانی عورتیں دیکھنے والوں کو زیادہ اپنی جانب ملتفت کرتی ہیں یا عام بول چال میں گالیاں دیتی مذید پیاری لگتی ہوں گی تو ایسا ہی اب تک کی دیکھے جانے والی ۴ اقساط جو یو ٹیوب پر دستیاب ہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ ایسی حرکتیں یا طرز زندگی ہمارے معاشرے میں رائج نہیں ہے مگر یہ ہماری خوش فہمی ہے کہ شائد مڈل کلاس ابھی اس سے بچا ہوا ہے۔ مظلوم عورت اور اب بدلہ لیتی عورت آج کل کافی پسندیدہ موضوع ہے جسے آپ ہمارے ڈراموں میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
ڈرامے کو پہلے فلم تیکنیک پر بنانے کی کوشش کی گئی پھر بیچ ہی میں روایتی ڈرامے کا فریم نظر آنا شروع ہو گیا۔لائیٹنگ کہیں اچھی ہے اور کہیں معیار سے کافی نیچے ہے خاص طور پر جب کہانی آؤٹ ڈور ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ پس منظر موسیقی بھی بھارتی متوازن سینما سے متاثر ہے اور ٹائیٹل گانا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر قسط کے آخر میں ایک لمبی تیکنیکی عملے کی فہرست چلتی ہے جو اللہ جانے ریکارڈنگ کے وقت کیا کرتے ہوں گے؟؟؟نظر تو ایسا کچھ بھی نہیں آیا۔
مجموعی طور پر جس اشتیاق سے ایک اچھی کہانی یا کہانیاں دیکھنے کے شوق میں ہم نے اس کی چار اقساط دیکھ ڈالیں اس پر ہمیں اپنے انٹر نیٹ بیلنس کے ضائع ہونے کا دکھ ہی ہوا کہ دو چار اور سیاسی تجزئے دیکھ لیتے تو اچھا تھا یا کوئی اچھی فلم دیکھ لیتے۔یو ٹیوب پر بھائی لوگوں نے وی لاگ لگا رکھے ہیں کہ معاشرہ تباہ ہو گیا یا اللہ جانے کونسی قیامت ٹوٹ پڑی۔ یہ ہمارے معاشرے خاص طور پر پل کی دوسری جانب کی دنیا کی کہانیاں ہیں جن کو شو بز میں موجود انجمن ستائش باہمی نے بنا یا ہے اور ایک بھارتی ادارے نے خرید کر چلا دیا ہے۔ اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو اخباروں یا سوشل میڈیا پر سامنے نہیں آتا ہو۔
ویب کے استعمال میں اضافے اور پاکستانی ٹیلیوژن کی اپنے ہاتھوں بربادی کے بعد یہ ایک نیا میدان سامنے آیا ہے۔ اب حسب معمول اس میں تجربات چل رہے ہیں۔ کیونکہ پل کی دوسری جانب ساری شو بز اندسٹری اگر رہتی نہیں ہے تو کم از کم گھومتی ضرور ہے کا یہ خیال ہے کہ کہانی لکھنا پھر اس کہانی کو ریکارڈ کرنا دنیا کا آسان ترین کام ہے۔سمجھتے رہیں۔سننے میں یہی آیا ہے کہ زی فائیو والوں نے کچھ اور ستائش باہمی گروہ کے ہدایتکاروں کو کچھ اور سیریزوں کا ٹھیکہ دیا ہے۔ اللہ خیر کرے۔۔۔۔(زکریا محی الدین)۔۔