تحریر: فداعدیل
استحصال، ناانصافی اور اقربا پروری ہر شعبے میں ہوتی ہے لیکن یہ بیماریاں جس قدر میں نے صحافت کے شعبے میں دیکھیں کہیں اور شاید زیادہ نہ ہوں۔ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز میں کام کیا، بہت کم ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو انسانیت کے معیار پر پورا اترتے تھے۔ سینئرز کے کمالات بھی قریب سے دیکھے اور جونئیرز کی مجبوریاں بھی دیکھیں۔ اب بھی نوجوان صحافیوں اور ان پر گزرنے والے حالات سنتا ہوں یا براہ راست شکایات سننے کا موقع ملتا ہے تو افسوس ہوتا ہے۔ اخباری مالکان یا ٹی وی چینلز کے مالکان کارکن صحافیوں کے ساتھ جس قسم کا سلوک کرتے ہیں وہ اپنی جگہ لمبی داستان ہے، آج صرف اس سلوک کے بارے میں بات ہوگی جو صحافی اپنے ہی جیسے دوسرے صحافی کے ساتھ کرتے ہیں۔ یہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں مگر اکثر چھوٹی باتوں اور چھوٹی حرکات سے ہی بندے کا پتہ چلتا ہے کہ کتنا پانی میں ہے۔ دفاتر کے اندر ایک سینئر صحافی اس زعم میں مبتلا ہوتا ہے کہ دنیا کا سب سے پڑھا لکھا، سمجھدار اور عقل کل بس وہ ہی ہے، باقی جتنے بھی جونئیرز ہیں ان کو ککھ نہیں پتہ۔ اور یہی بیماری میڈیا کے دفاتر میں بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ آپ نے ایک جونئیر ہوتے ہوئے کسی ایک لفظ، جملے یا محاورے کی اصلاح کی کوشش کی تو سمجھ لیجئے آپ نے دشمنی مول لی اور اگر یہ کام آپ نے سب کے سامنے کیا تو بس سمجھ لیجئے کہ کام خراب۔ آپ نے اچھا کام کیا اور آپ کے کام کی کہیں سے تعریف آئی بس پھر بھی الٹی گنتی شروع کردیجئے۔ رپورٹنگ کے شعبے میں اخباری دفاتر کے اندر زیادہ مسائل دیکھنے کو ملتے ہیں، جہاں اپنی بیٹ میں کام کرنے کے بجائے دوسرے بالخصوص جونئیر رپورٹرز کی بیٹ کی خبروں پر ہاتھ صاف کرنا بعض سینئیرز اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اپنا واسطہ تو ایسے سینیٹرز کے ساتھ بھی پڑا ہے جو متعلقہ بیٹ کے رپورٹر کی ہفتہ وار چھٹی کا انتظار کرتے اور اس کی چھٹی والے دن اس کی بیٹ کی خبر فائل کردیتے۔ یہ بھی شرم کا مظاہرہ ہوتا تھا ورنہ ایسی بے شرمی اکثر متعلقہ جونئیر رپورٹر کی چھٹی کے بغیر بھی دیکھنے کو مل جایا کرتی تھی۔ دفتر میں بیٹھ بیٹھ کر اکثر سینئرز کو باقاعدہ عادت پڑ چکی ہے کہ وہ ڈیسک سٹوری چلا کر اپنی سنیارٹی کا رعب جمائیں۔ ان گناہ گار کانوں نے یہاں تک سنا ہے کہ ایک چیف رپورٹر ہر رپورٹر کی بیٹ میں خبر دے سکتا ہے۔ لاحول ولاقوۃ۔
پھر ان گناہ گار آنکھوں نے کئی ایسے اونٹوں کو پہاڑ کے نیچے بھی آتے دیکھا ہے۔ صحافت کے شعبے میں آج کل نوجوانوں کی بڑی تعداد الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ ہے، کئی جونئیرز کی زبانی آج بھی ایسی ایسی داستانیں ظلم اور استحصال کی سننے کو ملتی ہیں کہ خون کھول اٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر الیکٹرانک میڈیا کے شعبے کے اندر ایک مافیا مشہور ہوا ہے جس کو “بیوروچیف مافیا” کا نام دیا گیا ہے۔ اس مافیا کے لوگ باقاعدہ اجتماعی طور پر استحصال کرتے ہیں۔ ایک بی سی کے بارے میں تو باقاعدہ مشہور ہوگیا ہے کہ وہ جب رپورٹر تھا تو سابقہ چینل کے بیوروچیف کے ساتھ اکثر اس بات پر لڑتا تھا کہ آپ نے میری خبر کیوں ہتھیا لی ہے اور پھر جب یہی رپورٹر خود بی سی بن گیا تو ظلم اور زیادتی کو مزید شدت دے کر وہی سلوک اپنی ہی ٹیم کے رپورٹرز اور دیگر کارکنوں کے ساتھ شروع کردیا۔ یعنی کپتان کی ذمہ داری تک پہنچنے کے باوجود ایسے بدبختوں کو سمجھ نہیں آتی کہ ان کے ماتحتوں کی کارکردگی کا کریڈٹ بطور کپتان انہی کو ہی ملتا ہے۔ ایسے اکثر بڑی کرسیوں والے چھوٹے لوگ پست ذہنیت کے مالک ہوتے ہیں جو قدم قدم پر اپنا ظرف اور اور اپنا چھوٹا قد آپ کو دکھاتے رہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک بدبخت کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ وی آئی پی جگہوں پر جانے کا بہت ہی شوقین ہے، ہیلی کاپٹر کے وزٹ پر تو وہ جیسے جان ہی دینے کو تیار بیٹھا ہوتا ہے۔ کوئی بتا رہا تھا کہ سابق گورنر خیبرپختونخوا اقبال ظفر جھگڑا نے کسی چینل کے ایک رپورٹر کو کسی قبائلی ایجنسی میں اپنے ہمراہ ہیلی کاپٹر میں لے جانے کی خواہش ظاہر کی تو اس چینل کے بدبخت بی سی کو تو جیسے آگ لگ گئی، پہلے گورنر ہاؤس فون پہ فون کرکے اس عجیب و غریب کام کی معلومات حاصل کیں، پھر گورنر سے براہ راست بات نہ کرسکنے کے بعد ان کے صاحبزادے کو فون کرکے رونا رویا اور چھوٹے پن کی انتہا کرتے ہوئے ان کو اپنی بڑی کرسی کا تقدس اور اس کرسی کے آداب سے ناواقف ہونے کے باوجود اس کے تقاضے یاد دلائے۔ بتایا کہ دفتر کے بڑے (حقیقت میں چھوٹے) کے ہوتے ہوئے ایک جونئیر رپورٹر کو کیسے گورنر ہیلی کاپٹر میں اپنے ہمراہ لے جاسکتے ہیں؟ یہ شکوہ ایک طویل عرصے تک گورنر ہائوس کے در و دیوار سے ٹکراتا رہا اور ہر بار ٹکرانے کے بعد ایک قہقہے کی آواز سنائی دیتی۔
یہ واقعہ صرف ایک مثال ہے۔ یہی بی سی اپنے رپورٹر کی خبر پر ہاتھ صاف کرنے کی شہرت رکھتا ہے، ایسا بھی ہوا ہے کہ سسٹم میں ہیڈ آفس تک خبر رپورٹر کے نام سے پہنچی مگر سکرین پر بیپر بی سی کی تصویر اور اسی کی آواز میں نشر ہوئی۔ اس قماش کے بی سی اپنے دفاتر میں کچھ مخبر اور خوشامدی بھی پالتے ہیں، یہ خوشامدی جب واش روم جانے کی اجازت بھی مانگتے ہیں تو صاحب کو دلی تسکین ملتی ہے، ایسے خوشامدیوں کو طریقہ بھی خوب آتا ہے کہ کیسے صاحب کو شیشے میں اتارنا ہے، کیسے اور کب ہاں میں ہاں ملانی ہے، صاحب کو کیا پسند ہے اور گھر سے اس کے لئے کیا کیا بنوا کر لانا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے ایک پروفیشنل صحافی ایسے ماحول میں کیا کام کرے گا؟ کیا وہ اپنے پیشے سے انصاف کرپائے گا؟ اور جب رپورٹر کی ایک اچھی بھلی خبر کو اینگلنگ کا نشانہ بنایا جائے، اپنے دوستوں کو نوازنے کے لئے رپورٹر کی خبر میں ڈنڈی ماری جائے اپنی سوچ اور تعلقات بنانے کے چکر میں رپورٹر کی خبر کا ستیاناس کیا جائے تو ایسے نام نہاد سربراہ کو چھپیڑ مارنے کا دل نہیں کرے گا؟ معلوم نہیں دوسروں کے بچوں کا رزق چھین کر لوگ کیسے مطمئن ہوجاتے ہیں اور اپنے بچوں کی فکر سے بے نیاز ایسے ظالم تقریبآ روزانہ ظلم اور استحصال کی نئی نئی مثالیں کیسے قائم کرلیتے ہیں؟ آج کے کالم اور اپنے گریباں میں جھانکنے کا مقصد اپنے شعبے کے کچھ بھیڑیوں کے بارے میں بتانا تھا اور یہ بھی کہ ہر جگہ میڈیا مالکان کا ہی قصور نہیں ہوتا، اپنی صفوں میں بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دماغوں میں خناس بھرا ہوتا ہے اور وہ طمانچے کھانے کے باوجود بھی نہیں سدھرتے۔ یہ فاتر العقل لوگ اس حوالے سے استاد کا درجہ بھی رکھتے ہیں، یعنی آپ ان سے سیکھ سکتے ہیں کہ مستقبل میں آپ کو ترقی ملے تو اپنے جونئیرز یا ماتحت عملے کے ساتھ کیسا برتاو کرنا ہے؟ آج کے نوجوان صحافیوں سے بس یہی گزارش ہے کہ دل چھوٹا نہ کیا کریں، محنت جاری رکھیں کیونکہ آپ کا ٹیلنٹ کوئی بھی آپ سے چھین نہیں سکتا۔(فدا عدیل)۔۔