charsio ka sheher

چھوٹی سی نیکی۔

تحریر: جاوید چودھری۔۔

ناصر محمود باجوہ جہلم میں ڈی پی او ہیں‘ یہ چند دن قبل میرے پاس تشریف لائے اور انھوںنے ایک عجیب واقعہ سنایا‘ ان کا کہنا تھا ’’میں روزانہ درجنوں فائلیں دیکھتا اور پراسیس کرتا ہوں‘ میری نظر سے چند ماہ قبل ایک فائل گزری جس میں ڈیڑھ لاکھ روپے کا چیک لگا ہوا تھا‘ چیک پولیس ویلفیئر فنڈ کے لیے تھا اور نیچے منجانب مظفر قریشی لکھا تھا۔

میں نے اپنے اسٹاف سے چیک کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا‘ یہ صاحب 1992 سے ہر سال پولیس ویلفیئر فنڈ میں رقم جمع کرارہے ہیں‘ میں یہ سن کر حیران ہو گیا کیوں کہ میری پوری سروس میں اس نوعیت کا کوئی کنٹری بیوشن میری نظر سے نہیں گزرا تھا‘ ہم بڑی مشکل سے عوام سے ویلفیئر فنڈ کے لیے رقم جمع کرتے ہیں اور وہ بھی ایک دو بار ملتا ہے مگر ایک شخص 31 برسوں سے مسلسل رقم بھجوا رہا تھا۔یہ بات عجیب تھی لہٰذا میں نے مظفر قریشی صاحب کا نمبر تلاش کیا اور انھیں فون کر دیا‘ قریشی صاحب نے مجھے عجیب داستان سنائی‘ یہ داستان اس قدر جذباتی تھی کہ میری آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ میں نے بعدازاں آئی جی سے رابطہ کر کے انھیں یہ کہانی سنائی۔

یہ بھی متاثر ہو گئے اور انھوں نے مجھے مظفر قریشی صاحب کے لیے تعریفی سند بھجوا دی‘ میں آج یہ سند دینے کے لیے اسلام آباد آیا ہوں‘ میری وش لسٹ میں دو لوگوں کے نام تھے‘ مظفر قریشی صاحب اور آپ‘ آج میری دونوں سے ملاقات ہو گئی‘‘۔

میں نے ڈی پی او صاحب سے واقعہ سننے کے بعد مظفر قریشی صاحب کو فون کیا‘ یہ ریٹائرڈ فیڈرل سیکریٹری ہیں‘ 1962 میں سروس جوائن کی اور فیڈرل سیکریٹری بن کر ریٹائر ہوئے‘ اسلام آباد میں رہتے ہیں اور واک اور کتابیں ان کے دو شغل ہیں۔میری بات سن کر یہ رو پڑے اور ان کے الفاظ نے مجھے بھی رلا دیا‘ یہ بار بار اﷲ تعالیٰ کا ذکر کر رہے تھے اور التجا کر رہے تھے یا باری تعالیٰ میری کوششیں ریت کے ذرے کے برابر ہیں تو انھیں قبول کر کے انھیں نیکی بنا دے‘ مجھے ان کی عاجزی نے اندر سے ہلا کر رکھ دیا‘ ان کی طبیعت بحال ہوئی تو انھوں نے بتایا‘ ہم چار بھائی تھے۔

ہمارے ایک بھائی ملک کے مشہور سائنس دان تھے‘ دوسرے ڈاکٹر تھے‘ تیسرے گورنمنٹ کالج لاہور میں کیمسٹری کے پروفیسر تھے اور میں سول سرونٹ تھا‘ ہم اسلام آباد میں رہتے تھے‘ میرے پروفیسر بھائی 1992میں بس سے لاہور سے اسلام آباد آ رہے تھے‘ اس زمانے میں جی ٹی روڈ سنگل ہوتی تھی۔سوہاوہ کے قریب دو بہت خطرناک ٹرن ہوتے تھے اور وہاں اکثر حادثے ہوجاتے تھے‘ ہمارے بھائی کی بس جب وہاں پہنچی تو ڈرائیور توازن برقرار نہ رکھ سکا اوروہ کھائی میں گر گئی‘ 16 لوگ موقع پر جاں بحق ہو گئے‘ ان میں ہمارے بھائی بھی شامل تھے‘ میں ان دنوں فنانس ڈویژن میں کام کرتا تھا‘ حادثے کی شام تھکا ہارا دفتر سے گھر آیا تھا۔

ان دنوں آرٹس کونسل میں کوئی ڈرامہ چل رہا تھا اور وہ بہت پاپولر تھا‘ میں نے وہ دیکھنے جانا تھا لیکن تھکاوٹ کی وجہ سے میرا دل نہیں چاہ رہا تھا اور میں کاؤچ پر لیٹا ہوا تھا‘ اس دوران فون کی گھنٹی بجی‘ دوسری طرف جہلم تھانے کا کوئی اہلکار تھا‘ اس نے مجھے حادثے کی اطلاع دی‘ یہ خبر بم کی طرح میرے دماغ پر گری اور میں سکتے میں آگیا۔میں بڑی مشکل سے سنبھلا اور پھر میں نے اپنے دوسرے دونوں بھائیوں کو بتایا اور ہم جہلم کے لیے روانہ ہو گئے۔

ہمیں راستے میں ہمارے ڈرائیور نے بتایا‘سرمیت لانے کے لیے ایمبولینس چاہیے ہو گی‘ اس زمانے میں ایمبولینس صرف بڑے شہروں میں ہوتی تھی‘ ہم واپس اسلام آباد آئے‘ پی آئی ایم ایس سے ایمبولینس لی اور جہلم پہنچ گئے‘ تمام میتیں بی ایچ یو میں پڑی تھیں‘ ہم کمرے میں داخل ہوئے تو ہمارے مرحوم بھائی لاشوں کے درمیان فرش پر پڑے ہوئے تھے اور ان کے گرد برف کی سیلیں رکھی ہوئی تھیں‘ ہم تینوں بھائی صدمے سے بے حال تھے۔

ہمیں اسپتال کی انتظامیہ نے بتایا‘ آپ کو پہلے پولیس اسٹیشن جانا ہو گا‘ ضابطے کی کارروائی کرنا ہو گی اور آپ پھر میت لے جا سکیں گے‘ ہم پولیس اسٹیشن چلے گئے‘ اس زمانے میں بھی پولیس کے بارے میں رائے اچھی نہیں تھی۔ہم بھی اسی مغالطے کا شکار تھے مگر جب ہم پولیس اسٹیشن پہنچے تو ہمارے ساتھ پولیس کا رویہ بہت اچھا تھا‘ ایس ایچ او نے ہمیں بٹھایا‘ دلاسا دیا‘ پانی پلایا اور فوری طور پر ضابطے کی کارروائی کر دی‘ ان کا رویہ دوسرے لواحقین کے ساتھ بھی بہت اچھا تھا‘ میں متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔میں نے قریشی صاحب کو ٹوک کر کہا’’ پولیس آپ کے اسٹیٹس سے متاثر ہو گئی ہو گی‘‘ قریشی صاحب نے جواب دیا’’ ہرگز نہیں‘ ہم نے کسی جگہ اپنا تعارف نہیں کرایا تھا‘ ہم وہاں صرف لواحقین کی حیثیت سے گئے تھے‘پولیس ہمارے مرحوم بھائی کے بارے میں بھی نہیں جانتی تھی‘ انھوں نے ان کے سامان سے میرا فون نمبر نکالا تھا اور مجھے اطلاع دی تھی‘ اطلاع کے دوران بھی ان کا رویہ ہمدردانہ اور سلجھا ہوا تھا۔

دوسرا وہ لوگ تھانے میں موجود دوسرے لواحقین کے ساتھ بھی ہمدردی اور محبت سے پیش آ رہے تھے‘ بہرحال ہم نے بھائی کی میت لی اور اسلام آباد آ گئے‘ ہم لوگ پولیس کے رویے سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہم تینوں بھائیوں نے اپنے بھائی کی پہلی برسی پر رقم جمع کی اور تھانے میں بھجوا دی‘ یہ پولیس اہلکاروں کی ویلفیئر کے لیے ہماری طرف سے معمولی سا کنٹری بیوشن تھا۔

ہم اس کے بعد ہر سال یہ رقم بھجواتے رہے‘ آج اس کو 31 برس ہو چکے ہیں‘‘ میں نے ان سے پوچھا’’ کیا پولیس کی طرف سے کبھی آپ سے رابطہ کیا گیا‘‘ ان کا جواب تھا ’’صرف ایک بار اور وہ بھی چند ماہ قبل ڈی پی او ناصر محمود باجوہ کا فون آیا تھا‘‘ میں نے پوچھا ’’پولیس نے رابطہ کیوں نہیں کیا؟‘‘ ان کا جواب تھا’’ ہم نے انھیں کبھی اپنے بارے میں بتایا ہی نہیں‘‘ میں فیڈرل سیکریٹری بن گیا مگر پولیس کو میرے بارے میں پتا نہ چلا‘ ہم شروع میں تھانے میں رقم جمع کرا دیتے تھے لیکن پھر ہم ایس ایس پی کو بھجوانے لگے‘‘ میں نے پوچھا’’آپ اسے خفیہ کیوں رکھتے تھے؟‘‘ ان کا جواب تھا ہم یہ کام اﷲ کی رضا اور اپنے بھائی کی یاد میں کرتے تھے۔

اس سے ہمارے بھائی کی روح کو تسکین ملتی تھی اور پولیس کی ضرورتیں پوری ہو جاتی تھیں بس ہمیں مزید کچھ نہیں چاہیے تھا‘‘ میں نے پوچھا‘ آپ پولیس کے بجائے کسی خیراتی ادارے کو بھی فنڈ بھجوا سکتے تھے‘ یہ بولے‘ ہم یہ بھی کرتے رہتے ہیں مگر آپ یقین کریں 31 سال قبل پولیس کے رویے نے ہمارا پولیس کے بارے میں تاثر بدل دیا تھا لہٰذا ہم اس معمولی سی نیکی میں انھیں بھی شریک رکھنا چاہتے تھے۔

میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو بتاتا چلوں مظفر قریشی اپنا راز مجھے نہیں بتانا چاہتے تھے‘ یہ بار بار ڈی پی او کے بارے میں کہہ رہے تھے انھیں میرا راز نہیں کھولنا چاہیے تھا‘ یہ مجھے بھی راز کو راز رکھنے کا کہہ رہے تھے مگر میں نے ان سے عرض کیا‘ ہمارے معاشرے میں ہر طرف بری خبریں پھیلی ہوئی ہیں‘ ہم اخبار کھولتے ہیں یا ٹیلی ویژن اور موبائل اسکرین دیکھتے ہیں تو ہمارا انسانیت‘ اداروں اور ملک سے یقین ختم ہو جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے کو آپ جیسی مثالیں چاہییں‘ یہ اس ملک کو چلائیں گی‘ میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میں نے قریشی صاحب کو بڑی مشکل سے راضی کیا اور یہ اس کے بعد اپنی کہانی سنانے پر قائل ہوئے تھے‘ قریشی صاحب کے فون کے بعد میں دیر تک اندھیرے میں بیٹھا رہا اوراپنے آپ سے یہ پوچھتا رہا‘ کیا یہ مظفر قریشی صاحب کی کہانی ہے؟ میں آخر میں اس نتیجے پر پہنچا یہ ہرگز ہرگز مظفر قریشی کی کہانی نہیں‘ یہ دراصل ایک تھانے اور ایک ایس ایچ او کی کہانی ہے‘ 1992 میں کسی نیک دل ایس ایچ او نے اپنے تھانے کا کلچر بدل دیا ہو گا۔

اس نے اپنے عملے کو انسانوں کو انسان سمجھنے کا سلیقہ سکھا دیا ہو گا لہٰذا اہلکاروں نے لواحقین کے ساتھ وہ سلوک کیا جو دنیا کا ہر لواحق پولیس سے چاہتا ہے اور اس کا نتیجہ جاریہ نیکی کی صورت میں نکلا‘ ملک کی ایک بیوروکریٹک فیملی کی پولیس کے بارے میں رائے بدل گئی اور وہ 31 برس سے پولیس کے شہداء اور غازیوں کے خاندانوں کی خدمت کر رہی ہے۔

اس معمولی رقم سے خدا جانے اب تک کتنے لوگوں کا مقدر بدل گیا ہو‘ اﷲ تعالیٰ نیکی اور رزق حلال کو بیج بنا دیتا ہے اور یہ بیج جس بھی زمین میں جڑ پکڑ لیتا ہے وہاں سے نیکی اور خیر کے کروڑوں درخت نکلتے ہیں‘ مظفر قریشی کی رقم معمولی ہو گی مگر اس کا نتیجہ چھوٹا نہیں رہا ہو گا‘ یہ رقم جس جس گھر گئی ہو گی اس کا مقدر اور راستہ بدل گیا ہو گا وہاں نہ جانے اب تک خیر کے کتنے چشمے پھوٹ چکے ہوں گے۔

دوسرا اس کہانی میں آج کی پولیس کے لیے بھی ایک سبق ہے‘ پولیس جب کسی دکھی فیملی کے ساتھ اچھے رویے سے پیش آتی ہے‘ یہ اس کو دلاسا دیتی ہے‘ اسے بٹھا کر پانی پلا دیتی ہے اور ضابطے کی کارروائی کے لیے اسے ذلیل نہیں کرتی‘ اسے بار بار چکر نہیں لگواتی‘ اس سے پیسے اینٹھنے کے لیے غیر ضروری اورنا مناسب سوال نہیں کرتی تو اس کا نتیجہ مظفر قریشی کی شکل میں نکلتا ہے۔

بااثر خاندانوں کے ذہن میں پولیس کا امیج تبدیل ہو جاتا ہے اور 31 سال بعد ہی سہی مگر میرے جیسے لوگ اس پر لکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں چناں چہ آئی جی پنجاب کو چاہیے یہ مظفر قریشی صاحب کو بلائیں اور ان کی کہانی ان کی زبانی پولیس فورس کو سنائیں اور پھر پولیس کوبتائیں مجرم ہو یا بے گناہ ہم سب انسان ہیں اور دنیا کے ہر انسان کو دوسرے انسان سے ہمدردی‘ محبت اور عزت چاہیے ہوتی ہے چناں چہ تھانے آنے والے ہر شخص کو عزت‘ محبت اور ہمدردی دیں اور پھر اس کا نتیجہ دیکھیں‘ ملک اور آپ دونوں بدل جائیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں