تحریر: ظہیر احمد با بر
ہم پہلی دنیا جیسے کیوں نہیں ؟ مختصر سوال کا اتنا ہی جواب ۔ کیونکہ ہم پہلی دنیا سے نہیں ۔
جواب سن کر سوال کرنے والا گیلی لکڑی کی طرح سلگ اٹھا ۔ دھواں اگلتے ہوئے بولا ۔آخر کیا وجہ ہے ۔ پہلی دنیا کہلانے والے یورپ ، امریکا ، سکینڈے نیویا ، براعظم آسٹریلیا میں قانون کی حکمرانی ہے ۔انسان چھوڑ ، حیوان کے حقوق ہیں ۔ اخلاق ایسا کہ سب مثالیں دیں ۔ رزق کمانے کے کھلے مواقع ہیں ۔ وہ بھی انسان ہیں ہم بھی ۔ پھر ہم ویسا کیوں نہیں سوچتے ، اُن جیسا کیوں نہیں کرتے ، ہمارے رویے ایک جیسے کیوں نہیں ؟ لہجے کی تلخی اظہار تھی کہ سچ کی تلاش میں کسی پل قرار نہیں ۔
جواب دیا ۔ سوچ ، رویہ ، عمل ۔ یہی ترتیب حائل ہے پہلی اور تیسری دنیا میں ۔ پہلی دنیا میں بھی ایسے لوگ رہتے ہیں ۔ جن کے رویے تیسری دنیا جیسے ہیں ۔ وہ پہلی دنیا میں رہ کر بھی ویسے نہیں ۔نفرت بوتے ہیں اور اپنوں میں ہی قابل نفرت بن جاتے ہیں ۔ جیسے نیوزی لینڈ میں آسٹریلوی دہشت گرد ۔ اسی طرح تیسری دنیا میں بھی ایسے لوگ بستے ہیں ۔جنہیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں ، یہ ہم جیسے ہیں ۔ ان پر پہلی دنیا کے باسی ہونے کا گمان ہوتا ہے ۔ آمدن کم ہویا زیادہ ۔ سوچ مثبت رکھتے ہیں ۔ ظاہر اور باطن صاف ستھرا دکھتا ہے ۔وعدے کے پابند ، بااخلاق ہیں ۔ دوسرے کا احساس کرتے ہیں ۔ اپنے لیے ، خاندان کیلئے ، معاشرے کیلئے مسئلہ نہیں بنتے ، مسائل کے حل کی جستجو میں رہتے ہیں ۔یہ تاریکی میں اجالے جیسے ہیں ۔ یہ مایوسی نہیں ، امید پھیلا تے ہیں ۔ مشکل یہ ہے ، جیسے صحرا میں نخلستان کم کم ہیں ۔ ان کی تعداد بھی ہم میں کم ہے ۔ اگر ہم ترجیحات بدل کر یہ تعداد بڑھا لیں تو صحرا ، گلزار میں بدل جائے ۔تیسری دنیا پہلی دنیا بن جائے ۔
ہاں !تیسری دنیا میں پہلی دنیا جیسی سوچ رکھنے والے صرف یہی لوگ نہیں ، جوہم میں رہتے ہیں ، ہمارےجیسی مشکلات سہتے ہیں لیکن ہماری طرح ناخوش نہیں رہتے ۔ ایک طبقہ ایسا بھی ہے ، جسے یہ ماحول پسند نہیں آتا ۔ وہ اسے بدلنے کے بجائے اپنے حالات بدلنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ رخت سفر باندھتے ہیں اورقانونی غیر قانونی جیسا موقع ملے ، پہلی دنیا کی راہ پکڑ لیتے ہیں ۔ تیسری سے پہلی ، پہلی سے تیسری دنیا ، مثبت کا مثبت ، منفی کا منفی کی جانب سفر جاری ہے۔
سوال کرنے والے کے چہرے کا تناؤ کم ہونے لگا ۔ لگا ، الجھن سلجھ رہی ہے ۔ سرا مل رہا ہے ۔اضطراب کم ہوا تو نیا سوال اچھالا ۔ پہلی دنیا کی جانب پہلا قدم کیسے ممکن ہو ؟ کہا ۔ قدرت کے اصول کبھی نہیں بدلتے ۔ کل بھی طاقت اور دانش ہی معیار تھا ، آج بھی ہے ۔ محض طاقت وحشت ہے اور صرف دانش کمزوری ۔ جب چاہے وحشی آئے ، بغداد اجاڑے ۔ دجلہ وفرات کے پانی کو کتابوں کی روشنائی سے سیاہ کردے ۔پہلے طاقت یا پہلے دانش ۔ یہ بندے یا ریاست کی منشا ء پہ ہے ،اتنا یادرہے ، ایک کے بعد دوسرے سے رجوع کرنا ہی پڑے گا ۔ بہتر ہے پہلے دانش کو اپنایا جائے ، تاکہ طاقت حد پار نہ کرے ۔
نیوزی لینڈ میں آسٹریلوی دہشت گردی سبق ہے ۔ کیسے ایک گندی مچھلی تالاب کو گندا کردیتی ہے ۔ کیوی وزیراعظم جیسنڈا آرڈن کا رویہ دوسرا سبق ۔ مثبت سوچ کا شفاف پانی چاہے تو گدلا پن تیزی سے دور کیا جاسکتا ہے ۔ یہی اپروچ پہلی دنیا کی بقاء ہے ۔ تذبذب رکاوٹ ہے ، یکسوئی راہ ۔
ذہن رواں ہوا تو کہہ ڈالا ۔ بات اب تیسری دنیا تک محدود نہیں رہی ۔ چوتھی دنیا کا فلتھ ڈپو کب کا کھل چکا ۔ جہاں تیسری دنیا کی ناکام ریاستیں پہلی دنیا کا اگلدان بنی ہوئی ہیں اور چوتھی دنیا کا یہ بلیک ہول تیزی سے بڑھا ہورہا ہے ۔عقلمندوں کے لیے اشارہ کافی ہے ۔ نفرت تنہا ئی ہے ، محبت عالمگیر ۔ رہے نام اللہ کا ۔ ۔۔(ظہیر احمد بابر)۔۔
(ظہیر احمد بابر صاحب سینئر صحافی اور منجھے ہوئی لکھاری ہیں، برسوں پہلے ان کی تحریر کردہ ایک کتاب ،بازار حسن سے پارلیمنٹ ہاؤس تک ، نے کافی شہرت کمائی تھی،یہ کتاب آج بھی ان کا تعارف ہے۔۔ ظہیر بھائی کے ساتھ نیونیوزمیں کچھ عرصہ گزارا جو بہت یادگار رہا، اب آپ ظہیراحمد بابر کی تحریریں تواتر کے ساتھ ہماری ویب پر پڑھ سکیں گے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔