تحریر: جاوید چودھری۔۔
پشاور میں 30 جنوری کو پولیس لائینز میں خودکش حملہ ہوا‘ یہ حملہ انتہائی خوف ناک تھا‘ 103 لوگ شہید اور 217 زخمی ہو گئے۔ایسے حملوں کے بعد پوری دنیا میں تفتیش اور تحقیقات شروع ہو جاتی ہیں اور یہ کام ہمیشہ وہ لوگ کرتے ہیں جو علاقے‘ لوگوں اور روایات سے واقف ہوتے ہیں اور جن کے لوکل لیول پر لنکس ہوتے ہیں لیکن ہم لوگ کیوں کہ الٹے پیدا ہوئے ہیں لہٰذا ہم ایسے واقعات کے فوراً بعد ٹیم بدل دیتے ہیں اور یوں زخم پر نمک لگا کر سسکیاں بھرنے لگتے ہیں۔
پشاور کے واقعے کے بعد بھی ہم نے فوری طور پر چیف سیکریٹری اور سی ٹی ڈی کے سربراہ ڈی آئی جی جاوید اقبال کو تبدیل کر دیا‘امداد اللہ بوسال چیف سیکریٹری بن گئے اور چارسدہ کے ڈی پی او سہیل خالد سی ٹی ڈی کے ڈی آئی جی تعینات ہو گئے۔
یہ دونوں پشاور پہنچ گئے لیکن اب ان لوگوں کو حالات سمجھنے‘ بریفنگ لینے اور اپنا نیٹ ورک بنانے کے لیے کم از کم چھ ماہ درکار ہوں گے اور ان چھ ماہ میں دہشت گرد پورے صوبے میں پھیل جائیں گے‘ حکومت اگر چیف سیکریٹری اور جاوید اقبال کو تبدیل نہ کرتی اور ان دونوں کو ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دے دیتی اور ساتھ ہی انھیں وفاق سے اچھی ٹیم فراہم کر دی جاتی تو کیا یہ بہتر نہ ہوتا؟ میرا خیال ہے پرانے لوگ زیادہ بہتر کام کرتے ہیں۔
کیوں؟ کیوں کہ یہ واقعہ ان کے کیریئر پر خوف ناک دھبہ ہے اور وہ یہ دھبہ صاف کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے لیکن ہم نے ٹرانسفر کر کے انھیں ایزی بھی کر دیا اور نئے لوگوں کو پشاور بھجوا کر معاملے کو الجھا بھی دیا اور یہ وہ غلطی ہے جو ہم مدت سے اس ملک میں کر رہے ہیں۔۔ کیا ہم ایک ہی بار سسٹم بنا کر مینجمنٹ کی اس غلطی سے جان نہیں چھڑا سکتے؟ ہم فیصلہ کر لیں سرکاری ملازم ہر صورت ایک پوسٹ پر تین سال پورے کرے گا اور اگر اس کے دور میں کوئی بھی بڑا جرم ہوا تو وہ اس وقت تک وہاں سے ٹرانسفر بھی نہیں ہو گا اور اس کی پروموشن بھی نہیں ہو گی جب تک وہ اصل مجرم نہیں پکڑ لیتا‘یہ بظاہر ایک چھوٹا سا فیصلہ ہے لیکن اس فیصلے کے نتائج دور رس بھی ہوں گے اور ہمارے سسٹم کی خرابیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔
میں جب بھی اپنے سسٹم کو دیکھتا ہوں تو مجھے اس میں ایسی درجنوں چھوٹی چھوٹی خامیاں نظر آتی ہیںجنھیں دور کرنے کے لیے کسی قسم کی اے پی سی چاہیے اور نہ ہی امریکا‘ چین اور یورپ کی مدد‘ ہم نے بس بیٹھنا ہے۔ فیصلہ کرنا ہے اور ملک ٹریک پر واپس آ جائے گا‘ میں نے چند دن قبل بیٹھ کر سسٹم کی چند بڑی خرابیوں کی فہرست بنائی‘ مجھے یقین ہے میری اس بات کو کوئی شخص سیریس نہیں لے گا لیکن میں اس کے باوجود اپنا فرض سمجھ کر یہ تجاویز وزیراعظم اور وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ ہو سکتا ہے ہدہد کی چونچ کے یہ چند قطرے کسی کا دل نرم کر دیں اور یہ ملک ٹریک پر واپس آ جائے۔
شاہد خاقان عباسی کے دور میں واپڈا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) مزمل حسین نے تربیلا ڈیم کی تین ٹربائنز چلا دی تھیں‘ فرنچ اور جرمن کنسلٹنٹس نے ڈیم کی انتظامیہ کو اس سے سختی سے منع کیا تھا لیکن جنرل مزمل کی انا آڑے آ گئی اور انھوں نے تینوں ٹربائنز چلا کر وزیراعظم سے فیتا کٹوا لیا اور یوں تینوں ٹربائنز تباہ ہو گئیں‘ ملک کو جنرل مزمل کی ضد اور انا کی قیمت 834 ملین ڈالر کی شکل میں چکانا پڑ گئی۔ نیب نے جنرل مزمل پر انکوائری شروع کر دی لیکن آج تک اس انکوائری کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا‘ کیوں؟ کیوں کہ ہمارے قانون کی نظر میں صرف اس رقم کو کرپشن سمجھا جاتا ہے جس سے کسی افسر کو ذاتی فائدہ ہوا ہو‘ ملک یا خزانے کو نقصان پہنچانے پر کسی شخص کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں ہو سکتی چناں چہ کوئی بھی افسر جب چاہے کسی بھی سرکاری ادارے کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچا دے۔ اس کا احتساب ممکن نہیں‘ ہماری اس اپروچ کی وجہ سے ہمیں آج تک اربوں ڈالر کا نقصان ہوا‘ کارکے‘ ریکوڈک‘ کراچی اسٹیل ملز‘ اورنج لائن ٹرین‘ موٹرویز اور پی آئی اے اس کی بدترین مثالیں ہیں‘ ہم نے غلط فیصلوں یا درست فیصلوں میں تاخیر کی وجہ سے اپنے ادارے اور ملک دونوں تباہ کر دیے۔
ہم اگر ایک ہی بار یہ فیصلہ بھی کر دیں ملک میں آیندہ کسی فیصلے میں تاخیر نہیں ہو گی اور اگر کسی فیصلے سے ملک کو نقصان ہوا تو فیصلہ ساز لوگ ذمے دار ہوں گے تو بھی میرا خیال ہے یہ ملک ٹریک پر واپس آ جائے گا‘ ہم اسی طرح یہ فیصلہ بھی کر لیں ڈویلپمنٹ کا ہر پروجیکٹ اپنی تاریخ پر ختم ہو گا‘ ملک میں حکومت بدلے یا پورا نظام تبدیل ہو جائے لیکن پل‘ سڑکیں‘ میٹرو‘ ایئرپورٹ اور ڈیم وقت پر مکمل ہوں گے‘ ان میں تاخیر نہیں ہو گی۔
انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم27 نومبر 2022 کو تین ٹیسٹ میچز کی سیریز کھیلنے کے لیے پاکستان کے دورے پر آئی تھی‘ اس نے پہلا ٹیسٹ راولپنڈی میں کھیلنا تھا‘ حکومت نے اس ٹیم کو سرینا ہوٹل میں ٹھہرا دیا‘ سیکیورٹی کی وجہ سے ہوٹل کے باہر اور اندر دونوں جگہوں پر عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘ اس ایکسرسائز کے دوران سیکیورٹی کے اخراجات بھی بڑھ گئے۔ عوام کو بھی تکلیف ہوئی اور پی سی بی نے آخر میں ہوٹل کو اڑھائی کروڑ روپے بھی ادا کیے‘ یہ ایشو بھی صرف ایک وقت کا مسئلہ نہیں‘ اسلام آباد میں جب بھی کوئی وی وی آئی پی آتا ہے تو ہم اسے سیرینا یا میریٹ ہوٹل میں ٹھہراتے ہیں اور پھر پورے شہر کو مورچہ بنا دیتے ہیں۔ اس سے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں‘ عوام کی تکلیفوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور پولیس بھی معمول کی کارروائی چھوڑ کر سیکیورٹی میں جت جاتی ہے لہٰذا ہم ایک ہی بار ڈپلومیٹک انکلیو میں چالیس پچاس کمروں کا فائیو اسٹار ہوٹل کیوں نہیں بنوا دیتے؟ یہ ہوٹل حکومت خود بنا لے یا پھر کسی فائیو اسٹار چین کو پلاٹ الاٹ کر دے‘ وہ ہو ٹل بنائے اور ملک میں جب بھی کوئی وی وی آئی پی آئے ہم اسے ڈپلومیٹک انکلیو میں ٹھہرا دیں۔ اس سے سیکیورٹی کے اخراجات بھی کم ہو جائیں گے‘ مہمان بھی محفوظ رہے گا اور عوام کو بھی دقت نہیں ہو گی۔ہم اسی طرح بری طرح خوراک اور ضروریات زندگی کے بحران کا شکار ہیں‘ ہم ایک ہی بارگندم‘ دال‘ کوکنگ آئل‘ بجلی‘ گیس اور پٹرول کا مسئلہ حل کیوں نہیں کر دیتے؟ پورے ملک کی زرعی زمینوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کردیں۔
گندم کے علاقے گندم‘ دالوں کے علاقے دالیں‘ سبزیوں کے علاقے سبزیاں‘ لائیو اسٹاک کے علاقے لائیو اسٹاک اور کوکنگ آئل کے علاقے کوکنگ آئل پیدا کریں اور ہم خوراک کے معاملے میں خودکفیل ہو جائیں‘ ہم ایک ہی بار بجلی‘ گیس اور پٹرول کا معاملہ بھی کیوں نہیں نبٹا لیتے‘ کوئلہ دستیاب ہے‘ کوئلے سے بجلی بنائیں۔ پن بجلی آسان ہے تو یہ منصوبے شروع کردیں اور یہ مسئلہ بھی ختم کریں‘ پٹرول اور گیس کی ڈرلنگ پالیسی بنائیں اور اسے بیس تیس سال کے لیے فکس کر دیں تاکہ یہ مسئلہ بھی ختم ہو جائے‘ ہم فارن ریزروز کے بحران کا شکار بھی رہتے ہیں۔ ہم ایک ہی بار دو تین فیصلے کیوں نہیں کر دیتے؟ ہم آئی ٹی انڈسٹری کے لیے ’’ایک ہزار ڈالر پلان‘‘ بنائیں‘ تیس چالیس لاکھ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کی ٹریننگ دیں اور یہ نوجوان فی کس ایک ہزار ڈالر ماہانہ کمانا شروع کر دیں۔ ہمارا مسئلہ حل ہو جائے گا‘ دوسرا ہم اوورسیز پاکستانیوں کو ترغیب دیں‘ یہ بینک کے ذریعے ڈالرز بھجوائیں اور حکومت انھیں مارکیٹ سے دس پندرہ روپے زیادہ دے دے‘ لوگ ہنڈی سے رقم بھجوانا بند کر دیں گے۔
ہم اگر اسی طرح ڈالرز پر بھی منافع دینا شروع کر دیں تو لوگ ڈالر گھروں میں رکھنے کے بجائے بینکوں میں جمع کرا دیں گے اور یوں بھی ہمارے ریزروز بڑھ جائیں گے‘ اسی طرح پاکستان میں ٹورازم کی ایک بھی یونیورسٹی یا ڈپارٹمنٹ نہیں‘ حکومت یونیورسٹیوں میں ٹورازم ڈیپارٹمنٹ کھلوائے اور نوجوانوں کو ٹریننگ دے یوں ملک میں سیاحت کی انڈسٹری ڈویلپ ہو جائے گی۔ سیاحت کے لیے ویزے بھی آن لائن اور آسان کر دیے جائیں گے تاکہ لوگ آ سکیں‘ ہمارا ویزہ اس وقت بھی دنیا کے مشکل ترین ویزوں میں شمار ہوتا ہے‘ ہم اگر اسی طرح آئی ٹی کا کوئی ایک یا دو شعبے لے لیں اور ساری یونیورسٹیوں کو ان شعبوں کے لیے وقف کر دیں تو بھی ہمارے لیے دنیا کھل جائے گی۔
صرف جاپان کو بلاک چین کے ساڑھے پانچ لاکھ ورکرز درکار ہیں جب کہ پوری دنیا سائبر سیکیورٹی کے ماہرین تلاش کر رہی ہے‘ ہم اگر صرف یہ دو شعبے لے لیں تو بھی ہم کمال کر دیں گے۔ دنیا میں ہمارے میڈیکل کالجز اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں بہت مشہور ہیں‘ آپ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کے لیے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیاں کیوں نہیں بناتے؟ ہمیں اس سے کروڑوں ڈالرز مل سکتے ہیں۔
ہم نے دہشت گردی کا مقابلہ بھی بڑی کام یابی سے کیا تھا‘ ہم اس کی ٹریننگ کا ادارہ کیوں نہیں بناتے اور تیسری دنیا کے ملکوں کو اس کی ٹریننگ کیوں نہیں دیتے اور آخری چیز ہمارے تعلیمی نظام میں تعلیم زیادہ اور تربیت نہ ہونے کے برابر ہے‘ ہم تربیت کو فوقیت کیوں نہیں دیتے‘ ہم سلیبس میں سیوک سینس اور ایٹی کیٹس کے کورسز کیوں شامل نہیں کرتے ؟ ہمارے بچے کم از کم بنیادی چیزوں سے تو واقف ہو سکیں۔ یہ یاد رکھیں دنیا کو بدلنے کے لیے بڑے کام نہیں چاہیے ہوتے‘ دنیا چھوٹے چھوٹے قدموں سے تبدیل ہوتی ہے‘ آپ چھوٹے قدم اٹھا لیں فاصلے خودبخود ختم ہو جائیں گے۔(بشکریہ ایکسپریس)
چھوٹے چھوٹے فیصلے
Facebook Comments