maslon ka masla

چھوڑو یار۔۔

تحریر: خرم علی عمران

ہم دنیا کی اقوام میں اپنے صاحبانِ اقتدار کی بہت سی قومی عادات کی بنا پر ایک منفرد سی قوم ہیں اور بہت سی عجیب و غریب ایسی عادات کے حامل ہیں جو دنیا کی اقوام میں ذرا کم کم ہی نظر آتی اور پائی جاتی ہیں۔ہماری ان عظیم الشان روایتی قومی عادتوں میں سے ایک” کیوں کریں؟” یا” چھوڑو یار مٹی پاؤ” بھی ہے۔ نمونے ملاحظہ کریں جنابِ عالی! ذرا روزگار کی حالت کچھ بہتر تو کردیں، کوئی منصوبہ بندی کوئی کوشش کریں، کوئی پلاننگ کرکے بے روزگاروں کی طویل لائن کو کم تو کرو نا؟ نجی اور سرکاری اداروں میں نئی ملازمتیں تخلیق کرو، نئی انڈسٹریز لگاؤ نا؟ جواب ملے گا کہ کیوں کریں؟ اچھا، مزے کی بات یہ ہے کہ یہ جواب قولا نہیں ہوگا یعنی منہ سے ایسا کبھی نہیں کہا جائے گا، بلکہ عملا ہوگا- اور مجال ہے کہ کچھ کیا جائے- اورمحال ہے کہ واقعی کچھ کرکے دکھایا جائے، کیا جانا تو دور- کچھ سوچنے اور دماغ لگانے کی زحمت بھی مشکل سے ہی گوارا کی جائیگی رویہ یہی ہوگا کہ ہم کیوں کریں بھئی؟ یا چھوڑو یار مٹی پاؤ! اور قولا کچھ یوں فرمایا اور کہا جائے گا، کہ بس جناب منصوبہ بندی کر لی گئی ہے کام شروع کر دیا گیا ہے۔ اس مشکل کے حل کے لیےہم پوری ہمت اور کوشش سے ساری طاقت لگادیں گے جلد ہی اثرات و نتائج سامنے آئیں گے۔اللہ مالک ہے۔ اللہ بہتر کرے گا۔ یہ سب قولا کہا جارہا ہوگا۔ یعنی اگر عوامی زبان میں بات کریں تو منہ کی فائرنگ اور عملا؟وہی کہ کیوں کریں؟چھڈو جی مٹی پاؤ۔

ایک اور مثال دیکھیں جنابِ والا ذرا نظام تعلیم پر خدارا دھیان دیں۔ آئندہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ یہ نقل کا رجحان یہ گرتا ہوا معیار تعلیم تو ہمارے لیے خطرے کا الارم ہے کچھ تو کریں نا یار قوموں کی ترقی تعلیم سے ہی تو وابستہ ہے، تو عملی جوابوہی ملے گا کیوں کریں، اور قولی وہی کہ دن رات محنت کی جارہی ہے، یہ ہورہا ہے، وہ ہو رہا ہے، اللہ بہتر کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ اللہ پاک تو ہمیشہ بہتر ہی کرتا ہے  برا توہم خود کرلیتے ہیں جیسے کہ بارش جیسی اللہ پاک کی رحمت اور نعمت کو ہم نے اپنی انتظامی نااہلی سے زبردست زحمت بنا دیتے ہیں۔ جیسےکیچڑ کا انبار،لائٹ کئی کئی دن تک غائب ہونا، نکاسی کا نظام خراب ہونے کی وجہ سے کئی کئی روز تک کھڑا پانی اور اس میں سوئمنگ سیکھتے قوم کے نونہال اور میٹھے میٹھے شاہی دلاسے۔

تیسری مثال ۔جناب والا! یہ کرپشن تو ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے، ہر شعبے میں کینسر کی طرح پھیل گئی ہے۔ زبان زدِ عام ہوگیا کہ نیچے سے لیکر اوپر تک اس میں مگن  محو اور منہمک ہیں، اس سے بڑی خرابی بڑا ہی بگاڑ آ گیا ہے، کچھ توکریں نا، جواب ملے گا، کرپشن کی اجازت نہیں دی جائے گی، آہنی ہاتھوں سے نپٹیں گے، قانون سب کے لیے برابر ہے، کڑا احتساب ہوگا وغیرہ وغیرہ، اور عملا وہی کیوں کریں بھئی؟

تو صاحبو! میں نے جو تین دانے دیگ کے پیش کیے ہیں اسے اسی ترتیب پر آپ ملک کے دیگر تمام مسائل اور شعبوں پر منطبق کرتے جائیں اور آپ پر یہ حیرت انگیز انکشاف بھی ہوگا کہ مذکورہ بالا اجتماعی مسائل کے علاوہ ہماری عظیم اکثریت بھیاپنی انفرادی زندگی میں اپنے امراء و بادشاہوں کے اثر سے اس سنہری عادت کی خوگر ہو گئی ہے۔  ذرا  ملاحظہ فرمائیں۔۔ یار! دیکھ میں تجھے ادھار دے تو رہا ہوں مگر وقت پر واپس کر دیو،، قولا، یار پکا میرے دوس، ٹائم سے پہلے ہی لوٹا دوں گا، پھر! عملا، وہی، کیوں کریں،۔۔ یار ذرا محنت تو لگے گی مگر کل تک یہ کام نپٹا ضروردینا، ہوجائے گا نا، قولا، آپ فکر ہی نہ کرو، عملا، کیوں کریںبھئی؟

تو یہ کیوں کریں المعروف بہ چھوڑو یار بڑی ہی مفید عادت ہے، اور کئی فضائل و فوائدکو جامع ہے، مثلا، بے کار کی ذہنی و جسمانی محنت و مشقت سے بچالیتی ہے، فکر فردا سے بے نیاز کر دیتی ہے، سکون اور غنودگی آمیز کاہلی کی وہ مہان کیفیت عطا کرتی ہے جو بڑے بڑے رشی منی سادھو کڑی تپسیا کے بعد حاصل کر باتے ہیں، وہ کسی شاعر نے کیا حقیقت پسندانہ بات کی ہے کہ

کس کس کو یاد کیجیے کس کس کو روئیے

آرام بڑی چیز ہے منہ ڈھک کے سوئیے

تو بھائی! اپنے ملوکین و سلاطین کے ساتھ ساتھ جنہیں ہم قائدین بھی کہا کرتے ہیں ان سے قوم میں منتقل ہونے والی اپنی ان پیاری اور نیاری قومی عادتوں کی حفاظت اور نگہداشت کریں کہ اس کرہ ارض پر آپ وہ واحد مملکت اور قوم ہیں جن میں اتنی عظیم الشان اور اس سطح کی عادات ہر سطح پر بہت ساری ایسی پائی جاتی ہیں جن میں سے کسی ایک یا دو کا بھی کسی اور قوم یا ملک میں پایا جانا اسے برباد کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ مگر ہم ان ساری عادتوں کے مجموعے کے حامل ہونے کے با وصف شاد ہیں، آباد ہیں، آزاد ہیں اور دشمنوں کے سینے پر مونگ دلے چلے جارہے ہیں۔ دلے چلے جارہے ہیں۔ (خرم علی عمران۔)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں