arb pati ya arab pati

چور،چوری سے جائے، ہیراپھیری سے نہ جائے

تحریر: انورحسین سمرا، تحقیقاتی صحافی

محترم شہباز شریف اپنے چار اہم وزراء کے ہمراہ 19 ستمبر کو چار روزہ سرکاری دورے پر امریکہ  گئے۔۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے نیو یارک میں خطاب کرنا تھا،میڈیا میں خبریں چھپی کہ وہ اپنے وزراء سمیت سرکاری وسائل سے نیویارک کے مہنگے ترین و پر آسائش ہوٹل میں قیام پزیر ہیں اور اس ڈیفالٹ ہونے والے ملک کا مقدمہ انتہائی تندہی و ایمانداری سے لڑ رہے ہیں. انہوں نے درجنوں دیگر ممالک کے سربراہان سے ملک کے لیے خیرات و امداد بھی مانگی جس کی ان کی حکومت نے ملک میں ڈھول سے منادی بھی کروائی۔۔کچھ درددل رکھنے والے محب وطن لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ایک غریب اور معاشی طور پر ڈیفالٹ کے قریب ہونے والے ملک کے سربراہ کو اتنے مہنگے ہوٹل میں رہنے اور وافر اخراجات کرنے سے گریز کرنا چاہیئے تھا۔۔ کچھ نے کہا کہ ملک میں بدترین سیلاب سے تباہ کاریاں ہونے سے آدھے ملک کی آبادی بے یارو مددگار کھولے آسمان تلے بھوک و افلاس اور وبائی امراض سے مر رہی ہیں اور حکمران سرکاری خزانے سے عیاشیاں منا رہے ہیں۔۔ کچھ نے موازنہ کیا کہ کپی تان تو بیرونی ممالک کے دورے میں عام ہوٹل میں ٹھہرتے تھے اور ملکی سرمایہ کی بچت کرتے تھے ایسا چیری بلاسم نے کیوں نہ کیا۔۔

 چند روز بعد حکومت کی طرف سے بیان آیا کہ وزیراعظم شہباز سپیڈ نے امریکی دورے کے اخراجات اپنی نیک کمائی یعنی جیب سے کیے ہیں جو تنقید کرنے والے پاکستانیوں کے منہ پر تماچہ ہے ان کو شرم آنی چاہیے انہوں نے غلط بیانی اور الزام تراشی کرکے ایک باکردار، ایماندار، اہل اور نیک آدمی کو بدنام کرنے کی بھونڈی سازش کی ہے. یہ بھی کہا گیا کہ ماضی میں شوباز شریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب بھی جتنے غیر ملکی دورے کیے وہ بھی ابا جی کی نیک کمائی سے کیے کیونکہ شوباز کا کوئی کاروبار نہیں ہے. حکومت کے اس دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے مجھ ناچیز نے تاریخ کے اوراق کی رو گردانی کی تو حقائق مختلف نکلے۔ ایک سرکار کا کاغذ ہاتھ لگا جس کے مطابق موصوف 2014 میں چین اپنے من پسند بابوؤں کے ہمراہ سرکاری دورے پر گئے جس کے لیے 10 ہزار ڈالرز نقد میں پنجاب بورڈ آف انوسٹمنٹ نے شوباز کے حکم پر اخراجات کے لیے دیئے. جبکہ سرکاری ریکارڈ بتاتا ہے کہ موصوف چین میں اپنے ساتھیوں سمیت اسٹیٹ گیسٹ تھے جس کا مطلب کہ دورے کے تمام اخراجات چین کی حکومت نے کرنے تھے۔۔ ان 10 ہزار ڈالرز سے کھانے کھائے گئے ، سیر کی گئی اور منکوحات کے لیے مہنگے تحائف و ساڑھیاں خریدے گیے. واپسی پر سرکاری خزانے میں جعلی رسیدیں جمع کروائی گیں اور اس پر آڈٹ پیرا بنا جو آج بھی سیٹل ہونے کے لئے سسٹم کا منہ چڑا رہا ہے.اس وقت بھی تنقید ہوتی کہ سرکاری وسائل سے غیرملکی دورے کیے جارے ہیں تو شوباز نے خود دعوی کیا کہ انہوں نے تمام اخراجات اپنی جیب یعنی والد کی نیک کمائی سے کیے تھے جو جھوٹ ثابت ہوا. یہ ایک خط ان کے بیروپیے چہرے پر زوردار چماٹا ہے جو سچی کہانی بتاتا ہے؛؛ سیانے کہندے نے چور چوری سے جائے ہیراپھیری سے نہ جانے؛؛ یہ شاید شوباز شریف کے لیے کہی گئی تھی. شہباز شریف نے اگر امریکی دورے میں سرکاری وسائل سے اخراجات کیے اور کہا کہ جیب سے کیے تو یہ آئین میں دی گئی صادق وامین کی تعریف کے متضاد ہے. اب وقت بتائے گا کہ شوباز کے حواریوں کے دعوے میں کتنی صداقت ہے یا یہ سرکاری وسائل سے بے ایمانی، چوری اور ناجائز استعمال سے عیاشیاں کرتے رہے. اب سوال یہ ہے کہ یہ نابلد، کرپٹ، بے ایمان، بدکردار اور چور حکمران کب تک عوام کو بیوقوف بنا کر خون چوستے رہیں گے، عوام کوبھوک و افلاس کی چکی میں پیس کر جھوٹ اور منافقت سے عوامی وسائل سے عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہیں گے. حکمرانوں کی لٹ اور توشہ خانہ سے قیمتی اشیاء کی چوریاں کب تک جاری رہیں گی اور نیوٹرل کب تک تماشا دیکھتے رہیں گے. جی وہ کیوں نہ تماشا دیکھیں کیونکہ وہ بھی بہتی گنگا سے پانی بھرتے ہیں. ان چوروں. لیٹروں. ٹھگوں اور بے ایمانوں کو کب تک احتساب کے نام پر تحفظ دیا جاتا رہے گا، کب عوام کی سنی جائے گی اور کب سب کےلئے ایک قانون ہوگا اور چوری کرنے والے کہٹرے میں ننگے ہونگے؟؟؟(انورحسین سمرا،تحقیقاتی صحافی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں