علی عمران جونیئر
دوستو،جنگل کا بادشاہ شیر کو کہاجاتا ہے لیکن خوبیوں کے حساب سے بھیڑیا ایسا جانور ہے جو شیر سے کئی درجہ بہتر ہے۔ بھیڑیا واحد جانور ہے جو والدین کا انتہائی وفادار ہے۔یہ بڑھاپے میں اپنے والدین کی خدمت کرتاہے۔یہ ایک غیرت مند جانور ہے۔ بھیڑیا واحد جانور ہے جو اپنی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا اور کسی کا غلام نہیں بنتا بلکہ جس دن پکڑا جاتا ہے اس وقت سے خوراک لینا بند کر دیتا ہے۔ اس لیے اس کو کبھی بھی آپ چڑیا گھر یا سرکس میں نہیں دیکھ پاتے ۔اس کے مقابلے میں شیر، چیتا، مگر مچھ اور ہاتھی سمیت ہر جانور کو غلام بنایا جا سکتا ہے۔ بھیڑیا کبھی مردار یعنی مرا ہوا جانور نہیں کھاتا، جنگل کا بادشاہ شیر بھی ایسا ہی کرتا ہے۔بھیڑیا اپنی شریک حیات کا اتنا وفادار ہوتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور مؤنث سے تعلق قائم نہیں کرتا۔اسی طرح مؤنث(یعنی اس کی شریک حیات) بھی بھیڑیا کے ساتھ اسی طرح وفاداری نبھاتی ہے۔ بھیڑیا اپنی اولاد کو پہچانتا ہے کیونکہ ان کے ماں باپ ایک ہی ہوتے ہیں۔جوڑے میں سے اگر کوئی ایک مر جائے تو دوسرا مرنے والی جگہ پر کم از کم تین ماہ کھڑے ہوکر افسوس کرتا ہے۔بھیڑئیے کو عربی زبان میں”ابن البار” کہا جاتا ہے، یعنی ”نیک بیٹا” کیونکہ جب اس کے والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں تو یہ ان کے لیے شکار کرتا ہے اور ان کا پورا خیال رکھتا ہے۔اس لیے ترک اپنی اولاد کو شیر کی بجائے بھیڑئیے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ شیر جیسا خونخوار بننے سے بھیڑیے جیسا نسلی ہونابہتر ہے۔
اب ایک کہانی سنیں،ایک چوہا بلی سے بڑا تنگ تھا۔ہر وقت اسے بلی کے حملے کا خوف رہتا تھا۔ اس نے اپنی فریاد کسی کو سنائی جس نے چوہے کو بتلایا کہ فلاں جگہ کرامت والا مرشد ہے۔تم اسکے پاس جاکر اپنی فریاد سنا دو۔چوہا مرشد کے پاس پہنچا اور اسکو اپنی پریشانی سنائی۔مرشد نے چوہے سے پوچھا،بولو تم کیا بننا چاہتے ہو؟ چوہے کے ذہن پر چونکہ بلی کی وحشت کا بھوت سوار تھا۔اس لئے چوہے نے مرشد سے فرمائش کی کہ اسے بلی بنا دیا جائے۔مرشد نے اپنی کرامت والی لاٹھی چوہے کے پیٹ پر مار دی جس سے چوہا بلی بن گیا۔اب چوہا بلا خوف زندگی گزارنے لگا۔تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ اسے احساس ہونے لگا کہ بلی بن جانا کافی نہیں کیونکہ اسے اب کتا تنگ کرنے لگا تھا۔چوہا ایک مرتبہ پھر مرشد کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ اسکی نسل بلی سے تبدیل کرکے کتا بنایا جائے۔پھر کرامت والی لاٹھی اسکے پیٹ پر پڑی جس سے چوہا کتے میں بدل گیا۔کچھ عرصہ گزرا تھا کہ اس نے دیکھا کہ کتے کی اہمیت شیر کے آگے کچھ نہیں۔اسے حرص ہونے لگا اور وہ ایک مرتبہ پھر مرشد کی خدمت میں پہنچا اور اس سے فرمائش کر ڈالی کہ اسے کتے سے تبدیل کرکے شیر بنا دیا جائے۔یہ فرمائش بھی پوری کر دی گئی۔اب کتا شیر بن گیا تھا۔شیر بننے کے بعد اس کے تیور مکمل طور پر بدل گئے تھے وہ دیگر جانوروں پر بلاوجہ رعب جھاڑنے لگا تھا۔ایک دن اس کے ذہن میں خیال آیا کہ میں تو طاقتور ہوں لیکن مجھ سے زیادہ طاقتور تو مرشد ہے جس نے مجھے چوہے سے بلی پھر بلی سے کتا پھر کتے سے شیر بنایا تو کیوں نا میں سب سے طاقتور یعنی مرشد بن جاؤں۔اس خیال کو حقیقت میں بدلنے کیلئے اس نے سب سے پہلے مرشد پر حملہ کرنے کا پلان بنایا اور پھر اس پلان پر عمل کرنے کیلئے مرشد کے پاس پہنچا اور مرشد پر حملہ کر دیا۔لیکن مرشد تو مرشدہوتاہے۔اس نے کرامت والی لاٹھی سے وار کرکے اس کو پھر سے چوہا بنا دیا۔سب کچھ کھونے کے بعد چوہے نے اپنی حرکت پر پشیمان ہوکر کہا۔میں مذاکرات کے لیے تیار ہوں بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔۔نوٹ: یہ قطعی غیرسیاسی سمجھا جائے۔
برطانیہ اور فرانس کے درمیان چلنے والی ایک ریل جو برطانیہ جا رہی تھی، اس میں مسافروں کی گنجائش کے مطابق تعداد پوری ہوچکی تھی، سوائے ایک نشست کے جو خالی رہ گئی تھی۔دو افراد کے لیے مختص نشستوں پر ایک پر پہلے سے فرانسیسی خاتون براجمان تھی، اتفاق سے ریل گاڑی کی روانگی سے چند لمحے قبل ایک انگریز شخص ریل میں سوار ہوا اور اس خالی نشست پر فرانسیسی خاتون کے برابر میں بیٹھ گیا۔فرانسیسی خاتون کے چہرے پر گہری تشویش کے سائے لہرا رہے تھے، وہ اپنی حرکات و سکنات سے مضطرب دکھائی دے رہی تھی، جب اس کے چہرے پر شدید تناؤ نمودار ہوا تو انگریز شخص سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھا، آپ کیوں اتنی پریشان ہیں؟اس خاتون نے ہچکچاتے ہوئے کہا ۔میرے پاس برطانوی قانون کے مطابق مجاز رقم سے زیادہ رقم ہے، جودس ہزار برطانوی پاؤنڈ بنتے ہیں،فرانس میں اتنی رقم رکھنا جرم نہیں مگر برطانیہ میں تو یہ جرم ہے، نجانے وہاں میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟انگریز کہنے لگا، یہ تو کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے، اتفاق سے میرے پاس چند سو پاؤنڈ ہیں، اگر آپ راضی ہوں تو، آپ رقم کو اس طرح تقسیم کریں کہ آدھی یعنی پانچ ہزار پاؤنڈ مجھے دے دیں، اور بقیہ خودرکھیں،بالفرض اگر پولیس ہم دونوں میں سے کسی ایک کو گرفتار کر لے، تو پھر بھی نصف رقم بچ جائے گی۔آپ اپنا لندن اور فرانس کا پتہ مجھے لکھ دیں تاکہ صورتحال کے مطابق آپ کو آپ کی امانت واپس کر دوں۔ فرانسیسی خاتون نے نے اسے اپنے گھر کا مکمل پتہ لکھ کر دے دیا۔ریل سے اتر کر فرانسیسی خاتون پولیس کی تفتیشی رکاوٹوں کے درمیان سے بغیر کسی رکاوٹ کے تقریباً گزر ہی چکی تھی کہ، انگریز شخص پولیس افسران کو مخاطب کرتے ہوئے چیخا،جناب، اس عورت کو پکڑیں، یہ دس ہزار پاؤنڈ غیر قانونی طور پر لے کر جارہی ہے، اس رقم میں سے آدھی رقم میرے پاس ہے اور باقی آدھی اس کے پاس، میں برطانیہ کا محب وطن شہری ہوں، اور میں اپنے ملک کے ساتھ غداری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔میں نے جان بوجھ کر اس کے ساتھ تعاون کیا تاکہ عظیم برطانیہ سے میری حب الوطنی ثابت ہو سکے۔پولیس نے عورت کو پکڑ لیا، اور جب دوبارہ معائنہ کیا تو اس کے پاس سے رقم برآمد ہوگئی، اور اس نے برطانوی شہری کے الزامات کی بھی تصدیق کردی، بعد ازاں برآمد ہوئی رقم کو ضبط کر لیا گیا۔ انگریز شخص نے بھی اپنے پاس رکھے ہوئے پانچ ہزار پاؤنڈ نکال کر پولیس کے حوالے کردیے۔پولیس افسران نے منی لانڈرنگ سے قومی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اس شخص کا شکریہ ادا کیا، اور اس کے جذبہ حب الوطنی کو خراج تحسین پیش کیا۔پولیس حکام نے خاتون کو دوسری ریل کے ذریعے واپس فرانس روانہ کر دیا۔چند دن گزرے تو فرانسیسی خاتون نے دروازے پر دستک کے جواب میں جب دروازہ کھولا تو اسی انگریز شخص کو دروازے کے سامنے کھڑا پایا، حیرانی اور غصے کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ اس نے انگریز سے کہا کہ تم کتنے جھوٹے اور مکار شخص ہو جس نے دھوکے کے ساتھ میری رقم پولیس کو برآمد کروا دی، اور دیکھو تم کتنے بے شرم بھی ہو کہ ایک بار پھر میرے سامنے ڈھٹائی سے کھڑے ہو۔انگریز نے اس فرانسیسی خاتون کی کسی بھی ترش بات کا جواب دینے کی بجائے، اسے ایک لفافہ تھمایا جس میںپندرہ ہزار پاؤنڈ تھے۔اور سپاٹ لہجے میں کہنے لگا، یہ آپ کی رقم اور ساتھ میری طرف سے انعام بھی ہے۔فرانسیسی عورت اس کی بات سن کر حیران رہ گئی کہ یہ کیا ماجرا ہے؟انگریز نے کہا، میم، آپ کا غصہ بجا ہے، لیکن اس وقت میں پولیس کی توجہ اپنے بیگ سے ہٹانا چاہتا تھا، جس میں تین ملین پاؤنڈ تھے، مجھے اس لیے یہ چال چلنی پڑی اور آپ کے دس ہزار پاؤنڈ جاتے رہے، جو میرے لیے ذرا بھی مہنگا سودا نہیں تھا۔واقعہ کی دُم: کبھی کبھی چیخ چیخ کر حب الوطنی، قانون کی پاسداری اور غیرت کا دعویٰ کرنے والا شخص درحقیقت چور بھی ہوسکتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔تقدیرسے لڑنے کے بجائے تقدیر بنانے والے سے دوستی کرلیں،سارے بگڑے کام خود سنورنا شروع ہوجائیں گے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔