تحریر: سید عارف مصطفیٰ
گزشتہ دنوں ایک رپورٹ زیر بحث رہی کہ جیو ملازمین کی کمیٹی مٹی کا ڈھیر نکلی تو مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ اس بابت سچ کیا ہے اور کیا نہیں ہے لیکن یہ اندازہ ضرور کرسکتا ہوں کہ مسائل بہت گھمبیر ہیں اور کیش فلو کی قلت سے دوچار اس ادارے سے سارے واجبات یک مشت طلب کرنا بہت سخت مطالبہ ہے جو کہ گو قانونی اعتبار سے تو غلط تو نہیں ہے مگر اخلاقی طور پہ پسندیدہ نہیں کیونکہ سانس لینے کی اسپیس دینا تو عین مرؤت کا تقاضہ ہے کیونکہ اس حقیقت سے تو بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جیو کو شدید ترین مالی بحران کا سامنا ہے اور اسکی بیشتر حقیقی وجوہات بھی کسی سے ہرگز پوشیدہ نہیں ہیں – تو ایسے میں اگر جیسے تیسے کرکے یہ واجبات لے بھی لیئے گئے تو مالکان کے پاس موجود رہا سہا سب زرنقد ختم ہوجائے گا اور یوں اس عمل پہ مجبور کرواکے کراکے اس باقیماندہ رقم سے مزید کسی کاروبار سے کچھ کماسکنے اور اس چینل کو مناسب طور پہ چلاسکنے کے امکانات پہ بھی کاری ضرب پڑسکتی ہے یہ بات اس تناظر میں بہت اہم ہے کہ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مبینہ طور پہ میرشکیل الرحمان نے اس مذکورہ کمیٹی سے یہ کہا ہے کہ وہ جون میں میں ان سے کسی ادائیگی کی توقع نہ رکھے ۔۔۔
دریں حالات مناسب تو یہ رہتا کہ ملازمین اور مالکان کسی ون ون پوزیشن تک پہنچ پاتے لیک جس معاہدے کا بڑی شدومد سے تذکرہ گونج رہا ہے اس میں تو کوئی ایسی بات نظر آتی بلکہ سونے کے انڈے دینے والی مرغی سے ایک ہی بار میں دفعتاً سب انڈے نکال لینے جیسی کوئی کہاوت یاد آتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ واجبات کی ادائیگی کی بات نہ کی جائے اور جیو کی انتظامیہ کو بھی یقینناً اسکے برعکس ہرگز کچھ نہیں سوچنا چاہیئے ۔۔۔ یہاں تو میں صرف یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ اس ضمن میں قرین اخلاق مناسب حکمت عملی یہ رہتی کہ قابل عمل راہ اختیار کی جاتی اور ون پلس ون سیلیری کا فارمولا منظور کرلیا جاتا یعنی ایک تازہ ختم ہوئے مہینے کی ادائیگی اور ایک پچھلے بقایایاجات میں سب سے پہلے ماہ کی ادائیگی ۔۔۔ اس سے معاملات کی استواری کی امید زیادہ ہے وگرنہ شدید احتمال اسی بات کا ہے کہ آئندہ ماہ ادائیگیوں کے معاملے پہ پھر یہی قضیہ اٹھ کھڑا ہوگا اور پھر یہی سب داؤ پیچ آزمائے جانے کی نوبت آجائے گی ۔۔۔
لیکن یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ یہ سب آخر کبتک چل سکتا ہے کیونکہ ون ون پوزیشن لیئے بغیر آپسی تلخیاں بڑھتی رہیں گی اور بقایا جات کی ادائیگی کا یہ جنجال ختم ہوتے ہوتے اس عتماد اور لحاظ کو نگل جائے گا کہ جو اس وقت کسی نہ کسی حد تک جیو کے مالکان اور ملازمین کے درمیان باقی و برقرار ہے اور اس ادارے کے حریف یقیننا ایسا ہی چاہتے بھی ہیں تو پھر آخر انکی وکٹ پہ کیوں کھیلا جائے اور ایہ تو بڑی سنگین حماقت ہوگی کہ اپنی توانائیاں انکے اہداف پورے کرنے پہ کیوں ضائع کی جائیں ۔۔۔ اس لیئے ضروری بلکہ ناگزیر ہے کہ مالکان اور ملازمین باہمی طور پہ ہی اس صورتحال کو مناسب کر کے حل کرلیں اور کسی تیسرے کو اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا ہرگز موقع نہ دیا جائے ۔۔۔ ورنہ تو اس ادارے کا وجود ہی خطرے میں پڑسکتا ہے کیونکہ ادارہ ہے تو یہ سب مطالباتی نیرنگیاں ہیں وگرنہ تو فراز کا یہ کہا جان رکھیئے کہ
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو ۔۔۔ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔۔(سید عارف مصطفی)۔۔
مصنف کی تحریرسے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر۔۔