سانحہ 9 مئی کور کمانڈر ہاوس پر حملے کا معاملہ صحافی برادری کے لئے درد سر بن گیا،پولیس کا تھانہ کلچر رویہ آزادی کے پچہتر سال بعد بھی تبدیل نا ہوسکا مظاہرین کے ساتھ موقع پر موجود کوریج کرنے والے صحافیوں کیخلاف کئی دنوں سے جاری کریک ڈائون کا سلسہ نا رک سکا جبکہ پولیس نے جیو فینسنگ کو ایک کاروبار کی شکل دے دی جس کا فون نمبر آیا اس کو اٹھا لیا چھاپے مارنا شروع کر دئیے آج 2023 میں بھی پولیس کی ٹریننگ اور پروفیشنل ازم کا فقدان اتنا زیادہ پست ہے کے وہ یہ بھی نہی دیکھ رہے کہ اس وقت جیو فینسگ میں آنے والے نمبرز صحافتی زمہ داری ادا کرنے والے ذمہ دار صحافی ہیں یا عام راہ گیر ہیں بلا تفریق سب کے گھروں میں ہراسمنٹ پھیلانے والے چھاپوں کا نا رکنے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تاہم زرائع کی مزید تفصیلات کے مطابق پولیس اس وقت ان معصوم راہ گیروں اور تماش بینوں سے رشوت کی بھی ڈیمانڈ اور وصولی بھی کر رہی ہے جن کا 9 مئی کے واقہ سے کوئی لینا دینا ہی نہی ہے بلکہ زیادہ تر تعداد ایسے سیاسی ورکرز کی بھی ہے جن کا 9 مئی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہی ہے بلکہ ن لیگ کے مختلف علاقائی حریف اپنی سیاسی دشمنیاں نکالنے کے لئے پولیس کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ ایک زیادہ بڑی عام شہریوں کی تعداد کے بدقسمتی سے نمبرز ایریا میں گزرنے اور رش میں پھنسے کی وجہ سے جیو فینسگ میں آئے ہیں لیکن پولیس کئی جانب سے کوئی پروفیشنل رویہ نہی دکھایا جارہا ہےاور اس حوالے سے حاصل ہونے والی مزید معلومات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے چیف رپورٹر مظہر اقبال کے گھر پولیس کا متعدد بار چھاپہ مارنا جبکہ مظہر اقبال 9 مئی کو صحافتی زمہ داریاں نبھانے کے لئے مظاہرین کے ساتھ موقع پر موجود تھے تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ جیو فینسگ میں مظہر اقبال کا نمبر آنے پر ان کے گھر ریڈ کی ہے دوسری جانب صحافیوں کو درپیش ایسے مسائل کی بنا پر پنجاب حکومت کی پنجاب جرنلسٹ پروٹیکشن کوارڈینیشن کمیٹی بھی قائم کر چکی ہے اور محکمہ داخلہ باضابطہ طور پر کمیٹی کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر چکا ہے جبکہ پولیس کی سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر سی سی پی او لاہور بلال کمیانہ نے پولیس کو واضح طور پر صحافیوں اور معصوم شہریوں کے گھروں پر چھاپے مارنے سے منع بھی کیا ہے ۔
چیف رپورٹر کے گھر پر پولیس کے متعدد چھاپے۔۔
Facebook Comments