سینئر اینکر پرسن اور صحافی رؤف کلاسرا نے اپنے تازہ کالم میں لکھا ہے کہ ۔۔ابھی اگلے روز ہی چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے عدالت میں پوچھا کہ رئوف کلاسرا کدھر ہیں‘وہ خود عدالت میں موجود نہیں‘ لیکن اکثر اپنے ٹی وی شوز میں کہتے رہتے ہیں کہ عدالت اور ہم ججز کچھ نہیں کررہے‘ دیکھ لیں ہم نے ان افسران کی فہرستیں اکٹھی کرالی ہیں‘ جنہوں نے دوہری شہریت لے رکھی ہے‘ کام ایسے نہیں ہوتے ‘کچھ وقت لگتا ہے۔بلاشبہ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے کم وقت میں بڑے بڑے کام کرنے کی کوشش کی ہے اور بڑی حد تک کامیاب بھی رہے ہیں۔ یہ اتنا آسان کام نہیں کہ آپ اکیلے ایسے معاشرے میں چیزیں درست کرنے کی کوشش کریں‘ جہاں یہ سمجھا جاتا ہو کہ احتساب ہونا چاہیے ‘معاشرہ ٹھیک ہو اور لوگ بھی سدھر جائیں‘ لیکن یہ احتساب کسی اور کا ہو‘ میرا نہ ہو‘۔ روزنامہ دنیا میں انہوں نے لکھا کہ کچھ دن پہلے ‘دنیا‘ اخبار کے کرائم رپورٹر مدثر حسین کی خبر چھپی تھی کہ ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ڈاکٹر حیدراشرف نے کینیڈا کی شہریت لے لی ہے اور وہاں سولہ لاکھ ڈالرکا گھر بھی خرید لیا ہے ۔ پاکستان میں اپنے درجنوں پلاٹ اور جائیدادیں بیچ کر وہ کینیڈا چلا گیا ہے اورایک سال کی چھٹی بھی لے گیا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں رہا‘ گریڈ انیس کے افسر کے پاس کروڑوں کہاں سے آئے‘ جس سے اس نے کینیڈا بچے بھی شفٹ کر لیے اور جائیدادیں بھی خرید لیں۔