تحریر: علی حسن۔۔
وہ کوئی دیو مالائی کردار نہیں تھا ، انسان تھا۔ طبعی موت سے ختم ہونے والا انسان ۔ لیکن وہ نہ مرنے والا علامتی کردار بن گیا ۔ پاکستان میں تو چے گویرا بار بار آیا ہے۔ اپنی علامتیں چھوڑ کر گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سے اس نے بار بار یہاں کا دورہ کیا ہے لیکن ہر بار اسے ناکامی کا منہ اسی طرح دیکھنا پڑا ہے جیسے بوڑھے گڈیریا نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔ چے گویرا کو مرے ہوئے پچاس سال ہو گئے لیکن آج بھی وہ دنیا کے کونے کونے میں اسی طرح زندہ ہے جیسے لوگ خود زندہ ہیں اور ہر موڑ پر اس کا ذکر کرتے ہیں کہ انہیں تبدیلی یا انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوگ فرانس کے انقلاب کے بارے میں جانتے ہیں کہ بادشاہت کو اکھاڑ پھینکا گیا تھا۔ لوگوں کو خونی سڑک سے گزر کر انقلابی سڑک پر آنا پڑا تھا۔ چین کے انقلاب کے بارے میں لوگ جانتے ہیں کہ قدیم شہنشاہیت اختتام کو پہنچی تھی۔ ایران کے انقلاب کے دوران تو لوگوں نے خود دیکھا کہ چے گویرا نے انہیں گلی کوچے سے نکال کر شاہراہوں پر جمع کر دیا تھا اور شہنشاہ رضا پہلوی کی ڈھائی ہزار سال قدیمی شہنشاہیت کو تہران کی سڑکوں پر روند ڈالا تھا اور شہنشاہ کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا ۔ شہنشاہ کے سب سے بڑے حامی ملک امریکہ نے شہنشاہ کو امریکہ میں پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہر ہر موقع پر چے گویرا حرکت میں آجاتا ہے ۔ ابھی ابھی کی بات ہے کہ وہ سری لنکا میں آیا تو عوام نے وزیر آعظم کے گھر کو بھی آگ لگادی۔ لیبیا میں وہ آیا تو عوام نے پارلیمنٹ کو ہی جلا کر خاک کر دیا۔ عوام مشتعل تھے ۔ غصے میں بھرے پڑے تھے کہ انہیں کھانے کو سامان مہیا نہیں ہے اور اسٹیٹسکو عناصر اپنا کچھ بھی دان کر کو تیار نہیں ہیں۔ چے گویرا یہ ہی تو کہتا ہے کہ دان کرو، دان کرو، تقسیم کرو۔ اپنے اثاثوں میں عوام کو حصہ دار بناﺅ ۔ دان کے داتار بنو۔ لیکن عجیب بات ہے چے گویرا کی بات ان کے کانوں کو بھلی نہیں لگتی ہے۔ اسی لئے عوام کی طاقت بار بار مات کھا جاتی ہے۔جس طرح انتالیس سالہ چے گویرا طبعی موت تو مر جاتا ہے لیکن ایک ایک علامت بن جاتا ہے کہ اپنی موت کے پچاس سال بعد بھی لوگ اسے تبدیلی اور انقلاب کی علامت سمجھتے ہیں، اسی طرح عوام کی طاقت ہر بار شکست سے دوچار نہیں ہوسکتی ہے۔ اسٹیٹسکو کی حامی قوتیں ، عناصر ہر بار ، ہر موقع پر چے گویرا کو واپس کر دیتے ہیں لیکن وہ بار بار پلٹ کر واپس ہوتا ہے ۔ بوڑھے گڈیریا نے بولوائی فوج کو مخبری کی تھی کی چے گوریا اس کے گاﺅں کے قریب چھپا ہوا ہے۔ گڈیریا سے جب پوچھا گیا کہ تمہیں اس کی ذات سے کیا تکلیف پہنچی تھی کہ تم نے اس کی مخبری کر دی۔ گڈیریا کا جواب ہی اسٹیٹسکو کے حامی عناصر کی موجودگی کو پتہ دیتا ہے۔ اس کا جواب تھا کہ چے گویرا کے گوریلوں کی مشقوں کی وجہ سے اس کے ریوڑ کے مویشی بھاگتے ہیں اور اس کی نیند بھی خراب ہو جاتی ہے۔
نیند کے خراب ہونے کی شکایت ان ہی کو ہوتی ہے جو اسٹیٹسکو کے حامی عناصر ہوتے ہیں۔ انہیں تبدیلی سے سروکار نہیں ہوتا ہے۔ انہیں تو اپنی نیند سے غرض ہوتی ہے۔ حالانکہ وہ سالوں اور صدیوں سے نیند میں ہی ڈوبے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ہی مثال لے لیں۔ قیام پاکستان کے وقت بھی چے گویرا نے عوام کو خواب غفلت سے اٹھایا تھا لیکن وہ پھر خواب میں چلے گئے تھے ۔ چے گویرا نے جب دیکھا کہ یہاں تو لوگ نیند سے اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے تو وہ ناکامی تسلیم کئے بغیر آئندہ کی امید لئے چلا گیا تھا ۔ میجر جنرل (رٹائرڈ) اکبر خان، ملک نوروز خان ، حسن ناصر، نذیر عباسی، ایاز سموں وغیرہ چے گویرا ہی کی تو علامتیں ہیں۔ چے نے1970 میں پاکستان کا رخ دوبارہ کیا تھا ، یہ چے گویرا ہی تو تھا کہ جس کے اشارے پر عوام نے بڑے بڑے بتوں کو پر امن انقلاب کی راہ پر گرا دیا تھا ۔ کس نے سوچا تھا کہ مزدور رہنماءشیخ رشید قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو جائیں گے۔ کس نے سوچا تھا کہ ڈاکٹر مبشر حسن ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر افراد سے ووٹ حاصل کر کے کامیاب ہو جائیںگے۔ حنیف رامے تو ایم مصور تھا، لکھنے پڑھنے کا کاروبار کرتا تھا ، کامیاب ہو جائے گا۔ ملک معراج خالد جیسا عام سے سیاسی کارکن پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہو جائے گا۔ اور یہ ہی لوگ مسند اقتدار پر بٹھا دئے جائیں گے۔ کس نے سوچا تھا کہ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان کی صورت میں بھی چے گویرا نمودار ہو گا۔ لیکن ایسا ہوا کیوں کہ عوام نے تبدیلی کا بگل بجا دیا تھا اور بگل بگولہ بن گیا تھا ۔ لیکن کانوں کے بہرے لوگوں نے بگل کی آواز ہی نہیں سنی تھی اور نہ ہی بگولے کو دیکھا۔ وہ ہی بت جو1970 کے انتخابات کے دوران سڑکوں پر اوندھے منہ گرا دئے گئے تھے، انہیں دوبارہ کھڑا کر دیا گیا تھا۔ چے گویرا جو مایوس نہیں ہوتا ہے ، پھر اپنے کام سے جت گیا تھا کہ 1988 کے انتخابات کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ خود ساختی جلا وطنی سے واپسی پر لوگوں نے لاہور میں ایک خاتون کا والہانہ تاریخی استقبال کیا اور ایک بار پھر تبدیلی لانے کا عندیہ دیا۔ سندھ کا بڑا زمیندار ایک عام سے وکیل کے مقابلے میں انتخابات میں شکست کھا گیا تھا۔ پاکستان کے ایک بڑے گدی نشین ایک عام سیاسی کارکن کے ہاتھوں شکست سے دوپار ہو گئے تھے ۔ کئی شہروں میں عام سے سیاسی کارکن اسمبلیوں کے لئے منتخب ہو گئے تھے ۔ وہ تبدیلی تو تھی کہ کراچی اور حیدر آباد جیسے شہروں میں معمولی حیثیتوں کے مالک لوگ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہو گئے تھے ۔ وہ چے گویرا کی ہی کامیابی تھی۔ لیکن اسٹیٹسکو کے حامی عناصر سے نبرد آزما چے گویرا بازو لڑانے کا کامیاب نہیں ہوسکا۔ تبدیلی ، پر امن تبدیلی کا آئینی راستہ ایک بار پھر ، ماضی کے بار بار کی طرح روک دیا گیا تھا۔
اس تماش گاہ میں خون ریز تبدیلی، آگ اور آتش سے خوف کھانے والے اسٹیٹسکو کے حامی عناصر اسی خواب میں مگن رہتے ہیں کہ تبدیلی کا راستہ روک دیا گیا ہے ، تبدیلی نہیں آئے گی۔ ان کے خیال میں چے گویرا بھی مات کھا گیا ہے ۔ بھلا ایک ستارے والی اس کی ٹوپی تو دنیا بھر میں تبدیلی کی اسی طرح علامت بن گئے ہی جس طرح چینی تاریخی لانگ مارچ کرنے والے ماﺅزے تنگ کی ٹوپی پہچانی جانے لگی تھی۔ چے گویرا کے منہ میں لگا سگار دنیا بھر میں چے کی یاد گار علامت بن چکا ہے۔ بھلا علامتوں کو بھی کہیں مارا جا سکا ہے۔ چے تو کہتا ہے کہ اس نے قبرستانوں میں ان لوگوں کی قبریں دیکھی ہیں جو اس لئے تبدیلی کے لئے میدان میں اس خوف سے نہیں آئے کہ مارے جائیں گے۔ لوگ کیوں نہیں سمجھتے ہیں کہ تبدیلی کا راستہ روکا تو جا سکتا ہے لیکن راستہ مسدود نہیں کیا جا سکتا ہے۔ سیلابی ریلہ خص و خا شاک کی طرح اس کے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بہا کر لے جاتا ہے۔ لیکن تبدیلی کا عمل جاری رہتا ہے۔ وہ اپنے منظقی انجام کو پہنچ کر ہی دم لیتا ہے۔ یہ ہی چے گویرا کی کامیابی کا مظہر ہے۔ (بہ شکریہ جہان پاکستان)