shartiya meetha | Imran Junior

چودھری اور بڑھاپا

علی عمران جونیئر
دوستو، گزشتہ دنوںچینی وزیراعظم پاکستان کے دورے پر تھے،انہوںنے چینی زبان میں خطاب کرکے ثابت کیا کہ انہیں اپنی زبان سے پیار ہے،پاکستانی وزیراعظم اور ان کے رفقاء نے انگریزی میں خطاب کرکے کس قوم کی نمائندگی کی؟ جب کہ انگریزی نہ تو پاکستان کے مہمان کی زبان تھی نہ میزبان کی؟ آخر سیاستدانوں ‘ اشرافیہ کی انگریزی غلامی کب ختم ہوگی! پوری دنیا آپ سے اپنی زبان میں مخاطب ہوتی ہے آپ بھی ان سے اپنی زبان میں مخاطب ہوں! چین کے لئے انگریزی بھی ایسے ہی ہے جیسے اردو! تو پھر کیوں نہ ان سے اردو میں مخاطب ہوکر اپنا قومی تشخص اور قومی حمیت برقرار رکھی جائے! جب چینی سربراہ بذریعہ ترجمہ چینی زبان میں پاکستان کے وزیر اعظم کی انگریزی تقریر کا ترجمہ سن رہا تھا تو کیا یہ تقریر پاکستان کی قومی زبان میں پیش کر کے چینی زبان میں ترجمہ نہیں کی جاسکتی تھی؟ چینی وزیراعظم نے تو ہزاروں میل کا سفر کر کے بھی اپنی قومی شناخت کو قائم رکھا اور آپ اپنے ہی ملک میں اپنی قومی زبان کو وقار نہ دے سکے تو بین الاقوامی فورم پر آپ خاک پاکستان کا وقار بلند کریں گے؟
ہمارے ملک کا کیا حال ہے،اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے۔۔ایک ٹرک ڈرائیوراپنے شاگرد کے ساتھ ایک ہوٹل پر رکا کھانا کھایا اور دو چرس کے سگریٹ پئے اور شاگرد کو بولا کہ چل تو بھی کیا یاد کرے گا آج ٹرک تُو چلاّ، لیکن ٹرک چلانے سے پہلے ٹائر پانی چیک کر لو۔شاگرد بہت خوش ہوا کہ آج ٹرک چلاؤں گا، اس نے جلدی سے ریڈی ایٹر کا پانی چیک کیا، ٹائر کی طرف آیا تو دیکھا ٹائر پنکچر تھا، اس نے استاد کو ٹائر کے بارے میں بتایا، استاد نے کہا جلدی سے بڑا جیک لگاؤ اور ٹائر بدل دو،اتنی دیر میں استاد نے دو اور چرس کے سگریٹ پئے، جب ٹائر بدل دیے تو استاد نے شاگرد کو کہا کہ میں اب تھوڑی دیر سونے لگا ہوں تم ٹرک چلانا شروع کر دو۔کنڈکٹر کچھ جوش میں اور کچھ چرس کے نشے میں اسپیڈ دیئے جا رہا تھا، کافی دیر بعد جب استاد کی آنکھ کھلی تو اس نے کنڈکٹر سے پوچھا۔ہاں کہاں پہنچے؟کنڈیکٹر نے کہا۔ استاد جی جگہ کا تو نہیں پتہ،لیکن میں کافی اسپیڈواسپیڈ جارہا ہوں۔ استاد بولا، اچھا چل سائیڈ پر روک،اب میں چلاتاہوں۔شاگرد نے ایکسلیٹر سے پیر ہٹایا اور گاڑی روک دی، استاد نیچے اترا تو دیکھا سامنے ایک ہوٹل ہے۔ استاد نے ہوٹل والے سے پوچھا کہ بھائی یہ کونسی جگہ ہے؟ہوٹل والا حیران و پریشان ان دونوں کو دیکھنے لگا اور بولا، جناب آپ تو اسی جگہ پر ہیں جہاں سے آپ نے کھانا کھایا، ہم تو سمجھے شاید ٹرک میں کوئی خرابی ہے اس لئے ٹرک جیک پر لگا کر آپ ایکسلیٹر دئے جا رہے ہیں۔ واقعہ کی دُم:یہی حال 75 سالوں سے ہمارے ملک کا ہے، اقتدار کے نشے میں دھت یہ حکمران پاکستان کو ایسے ہی چلا رہے ہیں، نہ پاکستان آگے جاتا ہے اور نہ ہی ان جیسے نمک حراموں سے چھٹکارا ملتا ہے۔
کیا کبھی آپ نے اپنے کسی ہم عمر کو اچانک دیکھ کر سوچا ہے کہ یہ کیسے لگ رہا ہے؟ اتنا بوڑھا ہو گیا ہے یہ تو؟ اگر آپ کے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا تو اس واقعہ سے عبرت پکڑیں۔۔۔ میرا نام ماریہ ہے اور میں حال ہی میں اس شہر میں منتقل ہوئی ہوں۔ ایک دن میں اس شہر کے ایک ڈینٹل سرجن کے کلینک میں بیٹھی اپنی باری کا انتظار کر رہی تھی۔کلینک کی دیوار پر ڈاکٹر کی تعلیمی اسناد آویزاں تھیں۔ وقت گزاری کیلیئے انہیں دیکھتے ہوئے میری نظر ڈاکٹر کے مکمل نام پر پڑی تو مجھے حیرت کا ایک جھٹکا لگا۔ یہ تو وہی لمبا چوڑا سیاہ بالوں والا خوش شکل، خوش لباس اور ہینڈسم میرا کلاس فیلو تھا۔میں اپنی باری پر اندر گئی تو ڈاکٹر کو دیکھتے ہی میرے سارے جذبات بھاپ بن کر بھک سے اڑ گئے۔ یہ ڈاکٹر سر سے گنجا، سر کے اطراف میں سلیٹی رنگ کے بالوں کی جھالر، چہرے پر پڑی ہوئی جھریاں، باہر کو نکلا ہوا مٹکے جیسا پیٹ اور کمر اس سے کہیں زیادہ جھکی ہوئی جتنی میرے کئی دیگر ہم عمر دوستوں کی تھی جنہیں میں جانتی تھی۔ڈاکٹر نے میرے دانتوں کا معائنہ کر لیا تو میں نے پوچھا: ڈاکٹر صاحب، کیا آپ فلاں شہر کے فلاں کالج میں بھی پڑھتے رہے ہیں؟کالج کا نام سنتے ہی ڈاکٹر کا لب و لہجہ ہی بدل گیا۔ جذبات کو بمشکل قابو میں رکھتے ہوئے اونچی آواز میں بولا: جی جی، کیا یاد دلا دیا، میں اسی کالج سے ہی تو پڑھا ہوا ہوں۔ میں نے پوچھا،آپ نے کس سال میں وہاں سے گریجویشن کیا تھا؟ایک بار پھر ڈاکٹر نے چہکتے ہوئے کہا، میں نے 1975 میں وہاں سے گریجوایشن کی تھی، لیکن آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟میں نے اسے بتایا کہ ان دنوں میں بھی اسی کلاس میں ہوا کرتی تھی۔اس بُڈھے، بد شکل، گنجے، بھالو جیسی توند والے موٹے، اجڑی ہوئی منحوس شکل والے بے شرم اور بے حیا ڈاکٹر نے میری شکل کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھا،اچھا ؟کونسا مضمون پڑھایا کرتی تھیں آپ؟۔
یہی ڈاکٹر صاحب جب گھر گئے تو گھر پہنچتے ہی بیگم صاحبہ نے حکم دیا کہ ۔۔سنئے جی! دکان سے دودھ کا ایک ڈبہ لا دیں اور اگر ان کے پاس انڈے ہوئے تو چھ لے آئیے گا۔تھوڑی دیر بعدڈاکٹرصاحب دودھ کے چھ ڈبے اٹھائے گھر میں داخل ہوئے۔بیگم غصے سے گویا ہوئیں۔۔یہ دودھ کے چھ ڈبے کیوں خریدے؟ڈاکٹرصاحب نے بیگم صاحبہ کو گھورا اور دانت پیستے ہوئے جواب دیا۔کیونکہ دکاندار کے پاس انڈے تھے۔
رات میاں بیوی میں جھگڑا ہوا ،صبح بیوی غصے میں نہ اٹھی،خاوند کو بیوی پر غصہ بہت آیا لیکن بولا کچھ نہیں! غصہ میں اُٹھا ناشتہ بنایا اور خود ہی بچوں کو ناشتہ کروایا، اور بچوں کو اسکول کیلئے تیار کیا، بیگم صاحبہ کی آنکھ کھلی بستر سے ہی گھورتی رہی، اور مسکراتی ہوئی سارے معاملات دیکھتی رہیں۔خاوند کا غصہ مزید بڑھ گیا پر بولا کچھ نہیں بس بچوں کو لے کر اسکول کیلئے نکلنے لگا تو بیگم صاحبہ اُٹھ کر بولی، رکئے ۔۔چوہدری صاحب آج اتوار ہے۔۔یہی چودھری صاحب نائی کے پاس شیو بنوانے گئے اور بولے میرے گالوں پر گڑھے ہیں جس کی وجہ سے شیو ٹھیک نہیں بنتی، بال چھوٹ جاتے ہیں۔۔نائی نے دراز سے لکڑی کی گولی نکالی اور کہا اسے دانتوں کے درمیان گال کی طرف دبا لو۔۔چودھری صاحب نے ایسا ہی کیا۔۔ایک طرف شیو بننے کے بعد لکڑی کی گولی دوسری گال کی طرف کرتے ہوئے چودھری صاحب نے نائی سے شک کا اظہار کیا۔اور کہنے لگے۔۔اگر یہ گولی پیٹ میں چلی گئی تو؟ ۔۔نائی نے چودھری صاحب کو مسکرا کر دیکھا اور بولا۔۔تو کیا!کل واپس کر دینا، جیسے دوسرے لوگ واپس کر جاتے ہیں!!!نا جانے کیوں چوہدری صاحب کو اس وقت سے اُلٹیاں لگی ہوئی ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔نیچے گرنا ایک حادثہ ہے ، نیچے رہنا ایک مرضی ہے۔ خوش رہیں،خوشیاں بانٹیں۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں