تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،آج آپ کے لئے کچھ چٹ پٹی اورمزے دارخبریں حاضر ہیں۔۔ایک خبر کے مطابق کورونا وائرس کے باعث لگائے گئے لاک ڈاؤن کے باعث دو ماہ کے دوران 76 فیصد افراد نے کسی شادی کی تقریب میں شرکت نہیں کی۔یہ دلچسپ انکشاف گیلپ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ حالیہ سروے کی رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔گیلپ پاکستان کے مطابق پاکستان کے 76 فیصد افراد نے لاک ڈاؤن کے دوران کسی بھی شادی کی تقریب میں شرکت نہیں کی۔واضح رہے کہ ملک میں جاری لاک ڈاؤن کے باعث نہ صرف شادی ہالوں بلکہ تقریبات پر بھی پابندی تھی۔اس دوران کچھ لوگوں نے صرف گھر ہی میں اپنے خاندان کی موجودگی میں بھی شادی کی تقریب سادگی کے ساتھ مکمل کی۔تاہم گیلپ کے مطابق 24 فیصد افراد لاک ڈاؤن کے دوران شادیوں میں بھی شریک ہوئے ہیں۔سب سے زیادہ شرکت کا رجحان 39 فیصد خیبرپختونخوا میں رہا۔شرکت کرنے والوں میں سے 71 فیصد نے کہا کہ تقریب میں کسی ایس او پیز پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ کورونا وائرس کے حوالے سے ہی ایک اور مزیدار خبرکچھ یوں ہے کہ کورونا وائرس کے باعث جہاں دنیا بھر میں لاک ڈائون کی وجہ سے لوگ اپنے گھروں تک محصور ہو گئے وہیں امریکا میں زیادہ تر لوگ کھانا پکا نے سے بیزار آگئے۔رائے عامہ کے ایک جائزے کے مطابق وہ روز ایک ہی جیسا کھانا بنانے سے تنگ آگئے۔55 فیصد کا کہنا ہے کہ کھانے پکا نے کی روزانہ کی مشق سے وہ بیزار آگئے۔تاہم کچھ امریکیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کھانا بنانے کی مشق سے انہوں نے لطف بھی اٹھایا۔ ان کے مطابق ہفتے میں 9 کھانے تیار کئے جا تے ہیں جن میں زیادہ تر یکسانیت ہو تی ہے۔جب سے یہ عالمگیر وبا پھیلی ہے ایک شخص نے ایک جیسا کھانا 28 بار بنایا۔46 فیصد چاہتے ہیں کہ انہیں پکا نے کے لئے سامان تیار ملے اورانہیں زیادہ وقت نہیں لگانا پڑے۔ گھر سے باہر پبلک ٹوائلٹ (عوامی بیت الخلا)استعمال کرنا لوگوں کی مجبوری ہوتی ہے لیکن کیا آپ نے کبھی ایسے بیت الخلا کے بارے میں سنا ہے جو کہ ٹرانسپیرنٹ(شفاف)ہو؟جاپان کے شگیرو بین نامی آرکیٹیکٹ نے عوامی بیت الخلا میں گندگی اور صفائی ستھرائی کی ناقص صورتحال کے حوالے سے لوگوں کے نظریات بدلنے کے لیے جدید طرز کے بیت الخلا ڈیزائن کیے ہیں جو کہ ٹرانسپیرنٹ (شفاف)ہیں۔یہ ٹرانسپیرنٹ یعنی شفاف بیت الخلا غیر منافع بخش نپون فانڈیشن کے اقدام کا حصہ ہیں جسے ٹوکیو ٹوائلٹ پروجیکٹ کا نام دیا گیا ہے اور اس کا مقصد لوگوں کو بیت الخلا میں جانے سے پہلے ہی اس کے اندر دیکھنے کا موقع فراہم کیا جارہا ہے تاکہ لوگ عوامی بیت الخلا میں جانے سے ہچکچائیں نہیں۔یہ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی بیت الخلا اسمارٹ گلاس سے بنائے گئے ہیں تاکہ لوگ اسے استعمال کرنے سے پہلے ہی باہر سے دیکھ سکیں کہ یہ صاف ہیں یا نہیں۔جیسے ہی کوئی شخص اس بیت الخلا میں داخل ہوتا ہے اور اسے لاک کرلیتا ہے تو اس کے شیشے فورا(اوپیک)ہوجاتے ہیں یعنی جس سے باہر کے کسی بھی شخص کو اندر کا نظر نہیں آتا۔دوسری جانب جیسے ہی رات ہوجاتی ہے تو ان شفاف بیت الخلا کی خوبصورت روشنیاں جل اٹھتی ہیں جس سے یہ ہر شخص کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ سیاستدان جھوٹ کیوں بولتے ہیں؟ سائنسدانوں نے بالآخر نئی تحقیق میں اس مشکل ترین سوال کا جواب ڈھونڈ نکالا ہے۔برطانوی اخبار کے مطابق ا سپین کے سائنسدانوں نے تحقیقاتی نتائج میں اس بات پر مہرتصدیق ثبت کر دی ہے کہ سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں اور اس کا فائدہ انہیں یہ ہوتا ہے کہ اس سے ان کے دوبارہ الیکشن جیتنے اور اقتدار میں آنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔اس تحقیق میں بارسلونا کی یونیورسٹی پومپیو فیبرا کے سائنسدانوں نے ایک سکہ لیا اور سیاستدانوں کو اس سکے کو اکیلے میں اچھال کر ٹاس کرنے کو کہا۔ سیاستدانوں کو بتایا گیا تھا کہ اگر سکہ گرنے پر ’ہیڈ‘ آیا تو انہیں کچھ انعام ملے گا تاہم اگر ’ٹیل‘ آئی تو کچھ نہیں ملے گا۔ سیاستدانوں نے یہ سکہ اچھالا اور 69فیصد نے بتایا کہ ان کا ’ہیڈ‘ آیا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں صرف 50فیصد کا ہیڈ آیا تھا اور باقی سب نے معمولی فائدے کے لیے جھوٹ بول دیا۔ رپورٹ کے مطابق اس تحقیق میں ا سپین کے 816میئرز کو شامل کیا گیا تھا۔ نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا کہ جب بھی آپ کسی سیاستدان کو کسی ایسی گیم میں شامل کریں گے جس میں جیتنے میں فائدہ ہو تو وہ جھوٹ بولے گا۔ سیاستدانوں کی اکثریت ایسا ہی کرتی ہے چنانچہ یہ لوگ الیکشن جیتنے اور اقتدار میں آنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ اس میں ان کا فائدہ ہوتا ہے۔ امریکی سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ ٹی وی دیکھتے یا موبائل فون اور کمپیوٹر کی ا سکرینوں پر نظر جمائے کھانا کھانے سے آدمی موٹاپے کا شکار ہو جاتا ہے۔ یونیورسٹی آف سسیکس کے سائنسدانوں کی اس تحقیق میں سینکڑوں رضاکاروں پر تجربات کیے گئے۔ ان رضاکاروں کو کم یا زیادہ کیلوریز کی حامل غذائیں اس وقت دی گئیں جب وہ ٹی وی دیکھ رہے تھے، کمپیوٹر کی ا سکرین پر کوئی پیچیدہ ٹیسٹ دے رہے تھے یا کوئی ویڈیو وغیرہ دیکھ رہے تھے۔ کئی ہفتوں تک ان تمام گروپوں کو اسی طرح کھانا دیا جاتا رہا اور ان میں موٹاپے کے ٹیسٹ کیے جاتے رہے۔ نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا کہ جو لوگ ٹی وی دیکھتے اور کمپیوٹر پر کوئی کام کرتے ہوئے کھانا کھاتے ہیں وہ معمول سے زیادہ کھانا کھاجاتے ہیں۔ جس گروپ کو کھانے کے وقت کوئی کام نہیں کرنے دیا گیا تھا اس گروپ کے لوگ دوسرے گروپوں کی بہت کم کھانا کھاتے رہے۔ بعد ازاں جب انہیں تبدیل کیا گیا اور ٹی وی دیکھتے ہوئے کھانا کھلایا گیا تو انہوں نے بھی معمول سے زیادہ کھانا کھایا جس کے نتیجے میں ان میں بھی موٹاپا بڑھنے لگا۔ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ’’کھانا کھاتے ہوئے ٹی وی یا کسی اورا سکرین پر مگن رہنے سے کھانے کا احساس نہیں رہتا۔ ایسے لوگوں کی توجہ ٹی وی کی طرف رہتی ہے اور وہ کھاتے چلے جاتے ہیں چنانچہ ایسے لوگوں کو موٹاپا لاحق ہونے کا امکان کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ موٹاپے سے نجات جان جوکھوں کا کام ہوتا ہے لیکن آسٹریلیا میں ایک نوجوان لڑکی نے یوٹیوب کے ذریعے صرف 5ماہ میں اپنا وزن 30کلوگرام تک کم کرکے دنیا کو حیران کر دیا ہے۔لندن کے ایک اخبار کے مطابق اس 21سالہ لڑکی کا نام عالیہ گراہم ٹیرا ہے جو بچپن ہی سے موٹاپے کا شکار تھی اور اب جا کر اس کا وزن110کلوگرام سے تجاوز کر گیا تھا۔عالیہ کو ڈاکٹروں نے وارننگ دی کہ اب اگر اس نے اپنے موٹاپے کو کنٹرول نہیں کیا تو اسے سنگین طبی عارضے لاحق ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی اس تنبیہ کے بعد عالیہ نے اپنے وزن میں کمی کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی خوراک میں تبدیلی کی اور فاسٹ فوڈز کی بجائے صحت مندانہ خوراک کھانے لگی۔ اس کے ساتھ اس نے ورزش بھی شروع کر دی۔ اس مقصد کے لیے اس نے یوٹیوب پر ورزش کی ویڈیوز دیکھنی شروع کر دیں اور اب 5ماہ بعد اس کا وزن 80کلوگرام رہ گیا ہے۔ عالیہ کا کہنا ہے کہ ’’میں یوٹیوب پر ریچل اور شوئی ٹنگ کی ویڈیوز دیکھتی تھی۔ ان کی ویڈیوز کی بدولت ہی میں اتنے کم عرصے میں موٹاپے کو اس قدر کم کرنے میں کامیاب ہوئی۔ میں اپنے اس مشن پر اب بھی کاربند ہوں اور اپنے وزن میں مزید کمی لاؤں گی۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔پاکستان میں سفارش اس قدر بڑھ چکی ہے کہ آدھا کلو گوشت بھی لینا ہو تو بڑا بھائی کہتا ہے۔۔میرا نام لئیں چنگا گوشت دے گا۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔