تحریر: جاوید چودھری۔۔
نیویارک میں چند حیران کن مشاہدے ہوئے‘ پہلا مشاہدہ چرس تھی‘ پورے شہر میں چرس کی بو پھیلی ہوئی تھی‘ میں جس گلی‘ پارک‘ ریستوران یا سب وے سے گزرتا تھا وہاں سے چرس کی بو آتی تھی‘ سڑکوں پر بھی ہر دوسرا شخص چرس کے مرغولے اڑاتا ہوا گزرتا تھا‘ لوگ پارکس اور ٹرینوں میں ٹن نظر آتے تھے‘ یہ امریکا کو ڈونلڈ ٹرمپ کا تحفہ تھا‘ ٹرمپ نے اپنے دورمیں چرس کو لیگل قرار دے دیا تھا جس کے بعد اب یہ نشہ نہیں رہی۔چرس کے سگریٹ عام مل جاتے ہیں اور اس کے پینے پر بھی کوئی پابندی نہیں لہٰذا نیویارکر اس آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں‘ وال اسٹریٹ کے علاقے میں اس کی کھپت زیادہ ہے وہاں سگریٹ اور شراب سے پرہیز کرنے والے لوگ بھی روزانہ چرس کا سوٹا لگاتے ہیں بلکہ وہاں اب یہ تصور پایا جاتا ہے اسٹاک کا کاروبار اور چرس دونوں لازم و ملزوم ہیں‘ آپ اگر چرس نہیں پیتے تو پھر آپ کو شیئر کا کاروبار نہیں کرنا چاہیے‘ یہ نشہ خواتین اور طالب علموں میں بھی عام ہے اور چرچ بھی اس سے نہیں بچے‘ پادری اور ننزبھی چرس پیتی ہیں‘ ڈرائیورز میں بھی یہ علت عام ہے۔
آپ اگر کسی ٹیکسی یا اوبر میں بیٹھیں تو آپ کو وہاں بھی چرس کی بوآ ئے گی‘ پبلک ٹوائلٹس اور ائیرپورٹس بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں‘ نیویارک میںیہ بو فضا تک میں محسوس ہونے لگتی ہے‘ امریکا ایک کنزرویٹو ملک ہے‘ آپ کو فحاشی اور عریانی کے جو مناظر یورپ میں دکھائی دیتے ہیں امریکا نہ صرف اس سے پاک ہے بلکہ اگر نوجوان جذبات میں بہہ کر کسی عوامی مقام پر ایک دوسرے سے لپٹنے کی غلطی کر بیٹھیں تو لوگ مائینڈ کر جاتے ہیں اور انھیں ڈانٹ کر کہتے ہیں ’’گو ٹو ہوم‘‘۔
امریکی مذہبی ہیں‘ آپ کو ہر گھر میں بائبل ملتی ہے اور اتوار کو ملک کے زیادہ تر چرچ بھی آباد ہوتے ہیں لہٰذا ایسے معاشرے میں چرس کی بیماری کا پھیل جانا غیرمعمولی واقعہ ہے اور یہ عادت بد آنے والے دنوں میں کیا گل کھلاتی ہے یہ اب دیکھنے والی بات ہے۔ امریکا میں ہم جنس پرستی اور ٹرانس جینڈر کی قباحت بھی تیزی سے پھیل رہی ہے‘ زیادہ تر ریاستوں نے اسے تسلیم بھی کر لیا ہے اور یہ اب اسے پروموٹ بھی کر رہی ہیں۔
اسکولوں میں بھی استاد بچوں کو بتاتے ہیں اگر آپ کو مخالف کے بجائے ہم جنس میں دل چسپی محسوس ہوتی ہے تو آپ شرمندہ نہ ہوں اور اسکول کو بروقت اطلاع کریں تاکہ آپ کی مدد کی جا سکے‘ سڑکوں پراب ہم جنس پرست جوڑے بھی نظر آنے لگے ہیں‘اس رجحان میں ہالی ووڈ کی فلموں‘ سیریلز اور نیٹ فلیکس نے اہم کردار ادا کیا‘ نیٹ فلیکس جان بوجھ کر ایسا مواد نشر کرتا ہے جس سے ہم جنسی پرستی کی پروموشن یا حوصلہ افزائی ہو سکے‘ سوشل میڈیا نے بھی اس بدعت میں اہم کردار ادا کیا‘ یہ بھی جان بوجھ کر ایسا مواد دکھاتا ہے جس سے اس علت کی ترویج ہو لہٰذا امریکا میں مسلمان بالخصوص پاکستانی بہت تکلیف سے گزر رہے ہیں‘ مجھے ایک صاحب نے بتایا‘ میں نے اپنے بچوں کو اس خوف کی وجہ سے دوبئی شفٹ کر دیاہے‘ میں ہر ماہ فیملی سے ملاقات کے لیے دوبئی جاتا ہوں‘ اس سے میرے اخراجات میں اضافہ ہوگیا مگر میںاپنے بچوں کے معاملے میں مطمئن ہوں۔
نیویارک میں تیسرا حیران کن مشاہدہ ’’ہوم لیس‘‘ لوگوں کی تعداد میں اضافہ تھا‘ مجھے کوئی ایسی عمارت یا گلی نہیں ملی جہاں کوئی نہ کوئی ہوم لیس نشئی نہ پڑا ہو‘ یہ لوگ گندے کپڑوں اور غلیظ جسم کے ساتھ فٹ پاتھ یا بڑی عمارتوں کی انٹرنس پر پڑے رہتے ہیں‘ سارا دن بھیک مانگتے ہیں اور شام کو اس رقم سے شراب اور چرس خرید لیتے ہیں‘انھیں کھانا دوسرے لوگ دے دیتے ہیں یا کوئی نہ کوئی این جی او پہنچا دیتی ہے‘ یہ ڈسٹ بینوں سے بھی خوراک نکال کر کھاتے ہیں۔
میں نے تھوڑی سی تحقیق کی تو پتا چلا ان میں سے زیادہ تر لوگ فوج سے ریٹائر ہیں‘ امریکا چالیس برس سے مختلف جنگوں میں مصروف ہے لہٰذا اس نے بے تحاشا لوگ بھرتی کیے‘ یہ لوگ عراق‘ افغانستان اور شام میں لڑتے رہے‘ جنگیں اختتام پذیر ہوئیں تو یہ بے روزگار ہوگئے‘ یہ کانٹریکٹ ملازم تھے‘ ریٹائرمنٹ یا معاہدے کے بعد انھیں ساڑھے چار سو ڈالر پنشن ملتی ہے اور اس میں ان کاگزارہ نہیں ہو سکتا‘ دوسرا جنگ کی ہول ناکی کی وجہ سے ان کے ذہن بری طرح متاثر ہو چکے ہوتے ہیں‘ یہ واپس آ کر اپنی گرل فرینڈ‘ بیوی یا گھر والوں سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور نتیجتاً سڑک پر آ جاتے ہیں‘ ان کے رویے میں بھی تشدد کا عنصر آ چکا ہوتا ہے لہٰذا یہ کسی ادارے یا کمپنی میں ٹک نہیں پاتے اور یہ سارا سفر بالآخر سڑک اور فٹ پاتھ پرآ کر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
آپ اگراب نیویارک جائیں تو آپ کو جگہ جگہ ہوم لیس سابق فوجی نظر آئیں گے‘ ان میں سے کچھ نے گلے میں میڈلز بھی لٹکا رکھے ہوتے ہیں اور بعض اپنے کاٹھ کباڑ کے ساتھ اپنی فوج کے زمانے کی تصویریں بھی رکھ کر بیٹھے ہوتے ہیں‘ مجھے ایک دو ہوم لیس لوگ فوجی یونیفارم میں بھی دکھائی دیے‘ امریکا کو ایک طرف ان ہوم لیس کی وجہ سے بے عزتی کا سامنا بھی ہے اور دوسرا بڑا ایشو سابق فوجیوں کی ذہنی حالت ہے‘ یہ لوگ محاذ سے نفسیاتی مریض بن کر واپس آتے ہیں اور امریکا میں شدت پسندی‘ قتل وغارت گری اور دہشت گردی کا باعث بنتے ہیں چناں چہ امریکی حکومت کا بے تحاشا سرمایہ‘ توانائی اور وقت ان لوگوں کی ڈی بریفنگ اور نفسیاتی بحالی پر ضایع ہو رہا ہے اور یہ دنیا کی واحد سپر پاور کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
مجھے چوتھا مشاہدہ موبائل فون کی چارجنگ ساکٹس کا ہوا‘ ہم اپنے ملک میں کسی بھی جگہ چلے جائیں ہمیں فون چارج کرنے کے لیے ساکٹ مل جاتی ہے اور کوئی بھی شخص اپنا چارجر ان میں فٹ کر کے فون چارج کر لیتا ہے‘ امریکا میں یہ عیاشی بند ہو چکی ہے‘ کافی شاپس‘ ریستورانوں‘ دکانوں‘ ٹرین اسٹیشنز اور سرکاری دفتروں میں چارجنگ ساکٹس بند کر دی گئی ہیں لہٰذا اگر آپ کا فون ڈس چارج ہو گیا تو پھر آپ کو چارج کے لیے آدھا شہر پھرنا پڑے گا‘ اسٹار بکس امریکا کا کافی کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے‘ اس کی 80 فیصد کافی شاپس میں ساکٹس نہیں ہیں۔
ریستوران اور دکانیں بھی صرف اپنے گاہکوں کو یہ سہولت دیتی ہیں‘ مجھے ٹائم اسکوائر میں فون چارج کرنے کے لیے جوتا خریدنا پڑ گیا کیوں کہ اسٹار بکس میں ساکٹس نہیں تھیں‘ ریستورانوں سے جواب ہو گیا تھا اور آخر میں جوتوں کی ایک دکان بچی تھی‘میں نے اس کی سیلز منیجر سے درخواست کی تو اس کا جواب تھا ہم یہ سہولت صرف اپنے گاہکوں کو دیتے ہیں لہٰذا میں ان کا گاہک بننے پر مجبور ہو گیا جس کے بعد بھی مجھے صرف پانچ منٹ ملے۔
میں نے اس بدتمیزی اور کنجوسی کی وجہ دریافت کی تو پتا چلا بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے‘ کافی شاپس اور عوامی مقامات پرلوگ سارا سارا دن فون چارج کرتے رہتے تھے‘ اس سے بجلی کے بلوں میں اضافہ ہو رہا تھا لہٰذا زیادہ تر برینڈز نے اپنے آؤٹ لیٹس سے ساکٹس بند کرا دیں‘ گورنمنٹ نے بھی عوامی مقامات سے یہ سہولت واپس لے لی‘ اس سے بجلی کی کھپت میں بھی کمی آ گئی اور کارپوریشنز اور برینڈز کے بل بھی کم ہو گئے۔
مجھے یہ آئیڈیا اچھا لگا کیوں کہ ہم پاکستان میں روزانہ بجلی کے لاکھوں یونٹس چارجر کے ذریعے ضایع کر دیتے ہیں‘ آپ کسی دکان یا گھر میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ہر سوئچ میں ایک چارجر نظر آئے گا اور وہ آن بھی ہو گا‘ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اس حقیقت سے واقف نہیں ہیں اگر چارجر ساکٹ میں لگا ہو اور سوئچ آن ہو تو یہ بجلی خرچ کرتا رہتا ہے‘پاکستان میں بلوں اوربجلی کی کھپت میں اضافے کی ایک وجہ چارجرز بھی ہیں‘ ملک میںاٹھارہ کروڑ فون ہیں‘ اتنے ہی چارجرز ہیں اور اگر ایک چارجر روزانہ ایک یونٹ بجلی خرچ کرے تو یہ مقدار اٹھارہ کروڑ ہو گی گویا ملک میں روزانہ 18 کروڑ یونٹ بجلی فون چوس جاتے ہیں اوراگر چارجرز چارج کے بعد بھی ساکٹ میں لگے ہیں تو آپ اس کو چار سے ضرب دے لیں‘ اب سوال یہ ہے کیا یہ اصراف نہیں؟ اور کیا ہم امریکا سے سیکھ کر اس اصراف سے بچ نہیں سکتے؟
میں نے امریکا میں ایک نیا ٹرینڈ بھی دیکھا اور یہ ٹرینڈ ہے ’’ٹپ‘‘ امریکا میں ٹپ کی روایت پرانی ہے‘ میں 2000 میں پہلی مرتبہ امریکا گیا تھاتو اس وقت بھی ٹپ دینا لازم تھا لیکن اب اس رجحان میں’’چول پن‘‘ کی حد تک اضافہ ہو چکا ہے‘ میں نے اسٹاربکس میں دیکھا کریڈٹ کارڈ کے استعمال سے قبل مشین پر ٹپ کا لفظ جلی حروف میں نظر آتا تھا اور آپ جب تک نو یا یس کو ٹچ نہیں کرتے تھے اس وقت تک کارڈ نہیں چلتا تھا‘ ریستورانوں میں بھی بل پر سب سے اوپر موٹے فاؤنٹ میں ٹپ لکھا ہوتا تھا اور گاہک اگر ٹپ نہ دے تو ویٹر سے لے کر مالک تک برا سا منہ بناتے تھے۔
امریکا میں کیوں کہ زیادہ تر پے منٹس کارڈ سے ہوتی ہیں چناں چہ گاہک کارڈ سے بھی ٹپ دے سکتے ہیں‘ یہ ٹپ کے آپشن کو کلک کر کے اضافی ’’اماؤنٹ‘‘ لکھتے ہیں اور اس کے بعد اوکے کا بٹن دبا دیتے ہیں اور یوں ٹپ بھی بل کے ساتھ کٹ جاتی ہے‘ میں نے پہلے دن ایک دو جگہ گستاخی کی لیکن جب ویٹرز اور دکان داروں نے مجھے کھا جانے والی نظر سے دیکھا تو میں سنبھل گیا اور پھر اس کے بعد یہ غلطی نہیں کی‘ نیویارک میں خیال کیا جاتا ہے گاہک بل کا تقریباً 15فیصد ٹپ دے گا اور مجھے یہ بات ایک بنگالی ویٹر نے بتائی‘ میں نے اسے ٹپ میں سکے دیے تو اس نے ہنس کر کہا ’’سر یہاں ٹپ 15پرسنٹ ہوتی ہے‘‘ میں نے بل دیکھا‘ پھر اس کی طرف دیکھا اور پھر یہ سوچ کر چپ چاپ وہاں سے نکل گیا’’یہ بنگالی مجھ سے 1971 کا بدلہ لینا چاہتا ہے‘‘۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔