تحریر: یونس آفریدی۔۔
عزیز صحافی ساتھیوالسلام علیکم!میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ روزنامہ جنگ میں 40 روز گذرچکے ہیں لیکن تاحال تنخواہ نہیں ملی ہے اس سے قبل 18اپریل کو مارچ کی تنخواہ ملی تھی آپ کو یاد ہوگا کہ رمضان المبارک سے قبل جنگ اور جیو میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور تنخواہوں میں اضافہ نہ ہونے کے سبب روزنامہ جنگ اور جیو کے ملازمین نے اپنے ادارے کے خلاف احتجاج کیا تھا جس میں کراچی یونین آف جرنلسٹس نے بھر پور شرکت کی تھی یہ احتجاج کئی دن جاری رہاتھا اور اس کی قیادت کراچی یونین آف جرنلسٹس کے صدرفہیم صدیقی نے کی تھی یہ فہیم کا انفرادی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس نے صحافیوں کے لیے آواز بلند کی تھی جواس کا بہت بڑا قصور ثابت ہو اس کی پاداش میں میں فہیم صدیقی کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا آپ جانتے ہیں کہ موجودہ حالات میں روزگار نہ ہونا کتنا بڑا المیہ ہے آج جنگ اور جیو کے وہ صحافی کہاں ہیں جن کے لیے آواز بلند کی گئی تھی سوال یہ ہے کہ کیا یہ فہیم صدیقی کی غلطی تھی؟
عزیزساتھیو!فہیم صدیقی کا تو مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس نے ہمیشہ حق کی آواز بلند کی ہے یہ وہی فہیم صدیقی ہے جس نے روزنامہ جنگ اورجیو کے مالک میر شکیل الرحمن کی گرفتاری کے لیے ملک بھر میں صحافیوں کو متحرک کیا تھا میر شکیل نے تو خیر احسان فراموشی کی لیکن ان دوستوں کا کیا جنہوں نے فہیم صدیقی کے لیے ایک جملہ تک نہیں کہا جنگ اور جیو کے ملازمین کو تو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے مانا کہ روزگا سب کو پیارا ہوتا ہے لیکن روزگار کا سبب اللہ کریم کی ذات پیدا کرتی ہے تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ فہیم صدیقی نے جنگ ،جیو کے ملازمین کو احتجاج میں شامل ہونے سے ازخود منع کیا تھا اگر یہ بات مان بھی لی جائے تب بھی جنگ اور جیو کے ملازمین کو فہیم صدیقی کی برطرفی پر شدید ردِ عمل دینا چاہیے تھا کیونکہ فہیم صدیقی کو جنگ ،جیو کے ملازمین کے حق میں آواز اٹھانے کی پاداش میں ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہونا تو یہ چاہیے تھا اس عمل کے خلاف جنگ اور جیو میں آگ بھڑک جانا چاہیے تھی ملازمین کو اپنے محسن کی برطرفی کے خلاف کام بند کردینا چاہیے تھا یہ وہ ہی فہیم صدیقی ہے جو مختلف اخبارات میں جاکراخبارات کی کاپی پریس بھجوانے سےرکوادیا کرتاتھا ایسا وہ صرف صحافیوں کے حقوق کے لیے کرتا رہا تھا کیا ایسے شخص کے لیے ادارے کے اندر سے آواز نہیں اٹھنا چاہیے تھی اگر جنگ،جیو کے ملازمین کی جانب سے شدید ردِعمل دیا جاتا تونہ صرف فہیم صدیقی کی برطرفی فوری ختم ہوتی بلکہ آئندہ کے لیے انتظامیہ چوکنا ہوجاتی لیکن افسوس ایسا کچھ نہیں ہوا اور آج تک پراسرار خاموشی کا سلسلہ جاری ہے
عزیز ساتھیو! روزنامہ جنگ اور جیو کے مالکان اب کسی صحافی کو ملازمت سے فارغ نہیں کریں گے اس کی گارنٹی کون دے گا اب جو تنخواہوں میں تاخیر کی جارہی ہے توجنگ اور جیو میں کوئی ماں لعل ایسا ہے جو اپنے ملازمین کے حق میں آواز اٹھائےاب اس معاملے پر مکمل خاموشی کیوں ہے اس معاملے پربھی اگر کوئی سامنے آئے گا تو وہ فہیم صدیقی ہی ہوگا یا اس جیسا کوئی پاگل ہوگا۔
عزیز ساتھیو!ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا رازق اللہ کریم ہے کیا کوئی ملازمت سے برطرف ہوکر آج تک بھوکا مرا ہے اللہ آپ کے روزگار کا بندوبست پیدائش سے پہلے کردیتا ہے شاید ہمیں اس پرکامل یقین نہیں ہے ہر شخص کو ملازمت ختم ہوجانے کے بعد ایسالگتا ہے کہ نہ جانے اب کیا ہوگا لیکن اللہ کریم نے اس کابندوبست کیا ہوتا ہے یہ یاد رکھیں کہ اللہ اپنے محبوب بندوں کو امتحان میں بھی ڈالتاہے ہوسکتا ہے یہ فہیم صدیقی کا امتحان ہو یہ وقت بھی گذر جائے گا لیکن اس میں اپنے اور پرائے کی پہچان ہوجائے گی میں جنگ اور جیو کے ملازمین سے کہنا چاہتاہوں کہ یادرکھیں چراغ سب کےبجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔۔(یونس آفریدی)۔۔