تحریر: شعیب احمد
کراچی پریس کلب میں جمعرات 8 اکتوبر کی رات 10:20 منٹ پر خفیہ ایجنسی اور سی ٹی ڈی کے 10 سے 15 مسلح اہلکار کلب کے چوکیدار کو دھمکاتے ہوئے زبردستی اندر گھس آئے اور کلب کے کچن، اسپورٹس کمپلیکس اور دیگر جگہوں کی تلاشی لیتے ہوئے کلب کی چھت تک پہنچ گئے، کلب کی چھت پر اس وقت ” جشن آزادی فیسٹول و فیملی گالا 2018 ” میں کام کرنے والے رضا کاروں کے اعزاز میں استقبالیہ پروگرام جاری تھا اجس میں 100 سے زائد اراکین کراچی پریس کلب موجود تھے۔
ان نامعلوم مشکوک افراد کو سیڑھیوں پر دیکھ کر پریس کلب کی گورننگ باڈی اور ویجلنس کمیٹی کے ذمہ داران نے ان سے شناخت پوچھنے کی کوشش کی تو وہ تمام افراد پریشانی کی حالت میں فرار ہونا شروع ہوگئے اور جاتے جاتے یہ بولتے رہے کہ ہم کسی عمران سے ملنے آئے تھے اب اس سے رابطہ نہیں ہو پارہا ہے، ان مسلح افراد کے پیچھے پیچھے کلب کے ذمہ داران باہر مین روڈ تک گئے لیکن وہ اپنی 4سے 5 ڈبل کیبن اور پراڈو گاڑیوں میں بیٹھ کر فرار ہوگئے۔
اس واقعے کے بعد پریس کلب کی انتظامیہ اور ویجلنس کمیٹی نے پولیس، رینجرز اور اعلی حکومتی شخصیات سے رابطہ کیا اور کلب کی صورتحال سامنے رکھی، رینجرز اور پولیس کے اعلی حکام پریس کلب پہنچے جبکہ ایڈیشنل آئی جی کراچی فون پر رابطے میں رہے، اس وقت سب کی جانب سے یہ ہی وضاحتیں دی جاتی رہیں کہ
قومی سلامتی کے ادارے عمران نامی شخص کے موبائل کو لوکیٹ کرتے ہوئےغلطی سے کلب میں داخل ہوئے اور بعد میں اس شخص کو پریس کلب کے برابر والے پلاٹ سے گرفتار کرلیا ہے اور ہم سب اس عمل پر کلب انتظامیہ سے معذرت کرتے ہیں۔
اگلے روز کراچی کے گورنر ہاؤس کے باہر دھرنے سمیت پورے ملک میں صحافی برادری، سول سوسائٹی ،سیاسی و سماجی شخصیات نے کراچی پریس کلب سے اظہار یکجہتی کیا،سندھ اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ آف پاکستان میں بھی اس مسلئے کو اٹھایا گیا اور اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا گیا،گورنر سندھ عمران اسمعیل، صوبائی وزیر اطلاعات سندھ مرتضی وہاب اور سینیٹ آف پاکستان میں سینیٹر حاصل بزنجو کی جانب سے توجہ دلاو نوٹس پر چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس مسلئے کی انکوائری کا حکم دیا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قومی سلامتی کے اداروں کے ذرائع وضاحتیں ہی دیتے رہے کہ پریس کلب پر چھاپہ ایک غلط فہمی اور لاعلمی میں مارا گیا اور متعلقہ افراد کو یہ نہیں پتہ تھا کہ یہ پریس کلب کی عمارت ہے، صحافی برادری نے ان کی معصومانہ وضاحتوں کو یہ سوچ کر قبول کیا کہ اداروں کی جگ ہنسائی نہ ہو۔
اس سارے شرمناک واقعے کے بعد جب ہر جانب سے کراچی پریس کلب پر دھاوے کی مذمت کی جارہی تھی اچانک کچھ نامعلوم واٹس اپ نمبر ز اور سوشل میڈیا پر عجیب و قریب پیغامات اور پواٹس چلنا شروع ہوگئی جس میں یہ بیان کیا جاتا رہا کہ پریس کلب پر قومی سلامتی کے اداروں کا چھاپہ بلاجواز نہیں تھا بلکہ اس چھاپے میں کچھ مذہبی انتہا پسند اور پاک فوج کے خلاف چلنے والا میڈیا سینٹر اور شراب کی بوتلیں پکڑی گئی تھیں اور اب مزید گرفتاریوں کا امکان ہے،
اس قسم کی پوسٹں کچھ نامعلوم افراد اور کچھ صحافی نما ٹاؤٹس جن کو یہ غم تھا کہ ان کی پریس کلب کی ممبر شپ نہیں ہوسکی ان( نامعلوم ) معلوم افراد کے آلہ کار بن کر مسلسل زہریلا پروپیگنڈا کرتے رہے اور جمعرات کے چھاپے کو عین قانونی قرار دینے کی ناکام کوشش میں مصروف رہے۔
ان تمام باتوں کے تناظر میں سوال یہ ہی پیدا ہوتا رہا کہ چھاپے میں گرفتار افراد، میڈیا سینٹر اور شراب کی بوتلیں منظر عام پر کیوں نہ لائیں گئی اور کیوں نہ کوئی مقدمہ درج کیا گیا اور اگر یہ سب کچھ عین قانونی تھا تو بل واسطہ اور بلا واسطہ غلط فہمی قرار دے کر معذرت کیوں کی جاتی رہی؟؟
ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہوئی کہ پریس کلب کے تقدس کی پامالی اور آزادی صحافت پر حملے کے خلاف احتجاج کرنے والے صحافیوں کی آواز کو دبانے، میڈیا کو یرغمال بنانے اور بلا جواز چھاپے کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے ممبر کراچی پریس کلب اور گزشتہ 20 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابسطہ نصف درجن سے زائد اخبارات اور نیوز ایجنسیوں میں کام کرنے والے نصر الله خان (چوہدری) کو جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ان کے گھر گارڈن میں چھاپہ مار کر گرفتار کرلیا گیا اور نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا ہے ،پولیس کے مطابق وہ ایک طاقتور ایجنسی کی تحویل میں ہیں اور ان سے انتہائی حساس معلومات جمع کی جارہی ہیں، بات اگر نصر الله خان کے علاوہ کسی اور کی ہوتی اور اتنی ہی سادہ ہوتی جیسا کہ بیان کی جارہی ہے تو یقین بھی کرلیا جاتا لیکن بات تو یہ بھی ناقابل فہم ہے کہ اس چھاپے اور غیر قانونی حراست کہ جس کو ” اغوا ” کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کی ساری تفصیلات نامعلوم نمبرز اور ان ہی صحافی نما ٹاؤٹس کی جانب سے سوشل میڈیا پر پہلے سے ہی بیان کی جارہی تھیں جیسے کہ وہ خود چھاپے اور تحقیقات میں عملی طور پر شریک تھے۔
اب صورتحال یہ بن چکی ہے کہ قومی سلامتی کے ادارے اپنی انا اور ناک اونچی کرنے کے گھمنڈ میں تمام اصول و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے ایک غیر قانونی عمل کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لئے ہرن سے ہاتھی کہلوانے کی کوشش میں مصروف ہیں، لیکن دوسری جانب معاشرے کا وہ طبقہ ہے جس نے ہر آمر اور ڈکٹیٹر کے سامنے کلمہ حق بلند کیا ہے، قلم کی حرمت اور آزادی اظہار رائے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، ٹھیک ہے اس وقت صحافی برادری میں ماضی والا وہ دم خم تو نہیں رہا لیکن حوصلے ابھی بھی بلند اور جزبہ جوان ہے۔
اے ستم گر ستم تو ستم آزما
ہم جگر آزما ہیں تو تیر آزما۔۔(شعیب احمد)