تحریر: انصار عباسی۔۔
اِس بار عورت مارچ کو ہمارے کچھ ٹی وی چینلز نے اپنی کمپین کا حصہ بنایا اور اسے ایسا خوبصورت بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی کہ وہ دھندا جو اس مارچ کے نام پر کیا گیا، اُس پر پردہ پڑا رہے۔ اس مارچ کے حقائق، جو ٹی وی چینلز نے چھپائے تاکہ اس مارچ کو خواتین کے حقوق کے لئے بڑی اعلیٰ قسم کی مہم بنا کر پیش کیا جائے، کچھ یوٹیوب چینلز کے ذریعے سامنے آئے۔
بےشرمی اور بےہودگی کے حدیں پار کرتے ہوئے اس بار اس مارچ میں شامل ہونے والوں نے ہم جنس پرستی کے حق میں بھی بات کی۔ ایک یوٹیوب چینل میں اس مارچ میں شامل ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ قائداعظم نے پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کا اعلان کیا تھا جس میں ہر کسی کو آزادی ہونی چاہئے کہ وہ جس طرح زندگی گزارنا چاہے (اس نوجوان اور اس جیسے کئی دوسروں کو کس نے ورغلایا کہ قائداعظم پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے جبکہ حقیقت میں قائد کی سینکڑوں تقریروں میں کسی ایک تقریر میں آپ کو پاکستان کے حوالے سے سیکولر لفظ نہیں ملے گا جبکہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی اُنہوں نے بار بار بات کی)۔
عورت مارچ میں شامل اُس نوجوان نے یہ بھی کہا کہ ہم اکیسویں صدی میں رہ رہے ہیں جس میں عورت عورت کے ساتھ اور مرد مرد کے ساتھ تعلق رکھے تو یہ اُن کا حق ہے جسے ہمیں تسلیم کرنا چاہئے۔
عورتوں کی شلواروں قمیضوں پر نعرے لکھ کر سرعام سڑکوں پر لٹکائے گئے، وہیں پر مجرے بھی ہوئے، ڈانس اور گانے کے بھی پروگرام چلتے رہے اور یہ سب کچھ عورت کی آزادی کے نام پر کیا جاتا رہا۔ میرا جسم میری مرضی اور ایسے ہی کئی اور بے ہودہ نعرے بھی پلے کارڈز اور بینرز پر درج تھے جن کا مقصد تھا کہ عورت جو چاہے اُسے کرنے کی آزادی ہونی چاہئے۔
اس سارے دھندے کا مقصد پاکستانی کے خاندانی نظام اور شادی کے ادارے کو تباہ کرنا تھا۔ عورت کیوں گھر کا کام کرے؟ کیوں کھانا بنائے؟ اپنے فیصلوں کے متعلق باپ، بھائی شوہر کی کیوں سنے؟ وہاں تو ایسی بھی باتیں ہوئیں کہ ہم بچے کیوں پیدا کریں؟ طلاق کو تو عورت مارچ والے ہمیشہ بڑا خوبصورت بناکر پیش کرتے ہیں اور باپ، بھائی، شوہر تو جیسے عورتوں کے ولن ہیں جبکہ مرد قابلِ نفرت۔مجھے افسوس اس بات کا ہے جو بےہودگی گزشتہ چند سال سے عورت مارچ کے نام پر یہاں پھیلانے کو کوشش کی جا رہی ہے، اُس کے باوجود کچھ ٹی وی چینلز نے اس سال اس مارچ کو اپنی مہم کا حصہ بنایا اور ایسے پیش کیا جیسے عورتوں کے حقوق کے لئے اس سے اچھی کوئی اور کوشش نہیں ہو سکتی۔وہ کچھ جو یوٹیوب چینلز نے دکھایا وہ ان ٹی وی چینلز نے جان بوجھ کر نہیں دکھایا اور سب اچھا اچھا بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی تاکہ عورت مارچ کو ایک مثبت مہم بنا کر پیش کیا جائے۔
یہ صحافتی بدیانتی کے علاوہ قانون کی خلاف ورزی تھی۔ قانونی طور پر اور پاکستان کے آئین کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی اس ملک میں ہم جنس پرستی کو رواج دینے کی بات نہیں کر سکتا، کوئی غیر شادی شدہ مرد اور عورت کے درمیان ناجائز تعلق کو میرا جسم میری مرضی یا انسانی حقوق یا کسی اور نعرہ کی بنیاد پر یہاں جائز قرار دینے کی بات نہیں کر سکتا۔ ایک دو سال قبل تو عورت مارچ میں شامل ہونے والے ایک بوڑھے شخص نے تو یہ مطالبہ تک کر دیا تھا کہ پاکستان میں نکاح یعنی شادی کو ہی ختم کر دیا جائے۔
میں نے سنا کہ گزشتہ روز اس مارچ کے نام پر بےہودگی اور گندگی پھیلانے کے خلاف وزیراعظم عمران خان کے معاون مولانا طاہر اشرفی نے ایک پریس کانفرنس کی اور عورت مارچ پر تنقید کی۔ قانونی طور پر ریاست اور حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پریس کانفرنس نہ کرے بلکہ عورت مارچ کے نام پر بےہودگی پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرے۔ایسے مارچ کی تو حکومت کو اجازت ہی نہیں دینی چاہئے۔ میں تو حکومت سے یہ بھی مطالبہ کروں گا کہ اُن ٹی وی چینلز کو بھی نوٹس جاری کریں جنہوں نے عورت مارچ کو اپنی کیمپین کا حصہ بنایا۔
ایسی بےہودگی کو نہ تو آزادیٗ رائے اور نہ ہی انسانی حقوق، حقوقِ نسواں یا برابری اور آزادی کے نام پر پروموٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست معاشرہ کی اسلامی اصولوں کے مطابق کردار سازی کا بنیادی کردار ادا کرے تاکہ شرم و حیا کو رواج دیا جائے، مرد اور عورت کے درمیان تعلق، خاندانی زندگی، شادی اور دوسرے معاشرتی معاملات میں ہر ایک کو اسلامی حدود و قیود کا پابند بنایا جائے جس کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہو کہ ہر ایک کو اُس کا حق ملے اور کوئی کسی سے زیادتی نہ کر سکے۔(بشکریہ جنگ)