تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
وقت کے ساتھ ساتھ سیاستدان یہ سیکھ جاتے ہیں کہ کیسے مشکل سوال یا کمنٹ پر بھی مسکراتے رہنا ہے۔ یہ جمہوریت کی خوبیوں میں سے ایک ہے کہ آپ ہر ایک کو جوابدہ ہوتے ہیں‘ لہٰذا تلخ سوالات کا سامنا کرتے کرتے آپ صبروتحمل سیکھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کیونکہ عوام سے ووٹ لینا ہے تو پھر عوام سے عزت سے بھی پیش آنا پڑتا ہے؛ اگرچہ آج کل یہ رواج ختم ہوگیا ہے اور اب جو وزیر یا سیاستدان سب سے زیادہ کھلا ڈلا بول سکے‘ وہی اعلیٰ عہدوں اور ٹی وی چینلز کے شوز میں پر بیٹھنے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ ابھی ایک نئے وزیر کی جب وزیر اعظم سے ملاقات ہوئی تو انہیں یہی کہا گیا کہ میڈیا سے ڈرنا نہیں بلکہ لڑنا ہے اور اگر ڈر گئے تو آپ کی خیر نہیں۔ وزیراعظم کے ایک اور سپیشل اسسٹنٹ نے بھی ترجمانوں کی محفل میں یہی شکایت کہ فلاں فلاں ترجمان یا وزیر ٹی وی چینلز پر پوزیشن نہیں لیتے۔ پوزیشن نہ لینے سے ان کی مراد ہے کہ وہ کھل کر مخالفوں پر زبانی کلامی حملہ آور نہیں ہوتے اور مہذب انداز میں بات کرتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ چینلز نے ہمیں بڑی حد تک بے صبرا کر دیا ہے۔ واہ واہ کے چکر میں ہماری زبانیں بگڑ گئی ہیں اور لہجے بھی۔ رہی سہی کسر پچھلے چند سالوں میں پوری ہوگئی اور اب ‘فری فار آل‘ ہے۔ جو بندہ ٹی وی پر بے ہنگم گفتگو نہیں کرسکتا وہ اب پروگرام میں شریک نہیں ہو سکتا۔ نہ ہی اسے پارٹی ٹی وی پر شو میں بھیجے گی۔ عوام نے شروع میں ان سیاسی مرغوں کی لڑائی کوخوب انجوائے کیا۔ خبریں غائب اور ٹی وی شوز کا موضوع صرف سیاست‘ سیاسی مرغے اور ان کے پارٹی لیڈرز ہی رہ گئے جن کی شان میں وہ ہر وقت قیصدے پڑھتے رہتے ہیں۔ دو تین پارٹیوں کے لوگوں کو شو میں بٹھا لیا اور پھر چاند ماری شروع۔اگلے روز پھر وہیں سے کام شروع۔ نہ اینکرز تھکتے ہیں‘ نہ سیاسی مرغے اور نہ ہی عوام۔چینلز نے ایک نیا ٹرینڈ دیا۔ جو بھی پارٹی کا ایم این اے یا کوئی اور بندہ شو میں شریک ہوتا ہے تو وہ ہر دوسرے فقرے میں اپنے پارٹی سربراہ کا نام لینا اور اس کی قائدانہ صلاحیتوں کا ذکر کرنا نہیں بھولتا۔ یہ کام مہارت ساتھ ایم کیو ایم نے شروع کیا کہ ہر بات میں قائد کی عظمت اور قائدانہ صلاحیتوں کا ذکر ہوتا کہ انہوں نے یہ فرمایا اور وہ فرمایا۔ اس سے پہلے مشرف دور میں پرویز مشرف اور شوکت عزیز کا نام اور خراج تحسین ہر وزیر کی زبان پر ہوتا تھا۔ زرداری کے جیالوں نے روایت آگے بڑھائی۔ اب بھلا نواز شریف کے وزیر اور پارٹی لیڈران کیسے چپ رہتے۔ وہ ان کے نام کی مالا جپنے لگے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ عمران خان صاحب نے اس بات پر ان سیاستدانوں کا مذاق بھی اڑایا تھا کہ یہ سب ذہنی طور پر اتنے غلام ہیں کہ ہر بات میں یہ الطاف حسین‘ زرداری اور شریفوں کا نام پہلے لیتے ہیں اور پھر بات کرتے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ان سب سیاسی بونوں نے خوشامد کی حد کر دی ہے اور یہ سب ان سیاسی پارٹیوں کے گھریلو ملازم بن گئے ہیں‘ جن کا کام ہر وقت ان کی تعریفیں اور خوشامد کرنا ہے۔ خان صاحب کہتے تھے کہ پارٹی کے ایم این ایز اور وزیروں کا کام اپنے لیڈروں کی خوشامدیں کرنا نہیں بلکہ ان کو راہ راستہ پر رکھنا‘ اور ان کے ہر غلط کام کو ایکسپوز کرنا ہوتا ہے۔
جب عمران خان وزیراعظم بنے تو سب کا خیال تھا کہ یہ ٹرینڈ اب ٹوٹ جائے گا لیکن پتہ چلا اب تو معاملہ پچھلے ادوار سے بھی آگے چلا گیا ہے۔ آپ کوئی چینل کھول لیں وہاں پی ٹی آئی کا کوئی وزیر یا ترجمان بیٹھا بار بار وزیر اعظم کی کرامات کا ذکر کر رہا ہو گا۔ کسی دن آپ گننا شروع کر دیں کہ وہ کتنی دفعہ عمران خان‘ نواز شریف یا زرداری یا بلاول کا نام لیتا ہے۔ خان صاحب جس خوشامدی کلچر کا مذاق اڑاتے تھے‘ اب پتہ چلا کہ وہ خود اسی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ آپ مجھے پی ٹی آئی کا ایک بندہ یا اس کا شو دکھا دیں جس میں وہ دس منٹ کی گفتگو میں درجنوں دفعہ عمران خان کا ذکر نہ کرے۔ ان لیڈروں کو احساس نہیں ہوتا کہ بار بار کی تکرار سے انسان بیزار ہوجاتا ہے۔ مجھے یاد ہے جب میں اپنا ٹی وی پروگرام چار دن کرتا تھا تو اگلے تین دن کسی ٹی وی کے پروگرام میں نہیں جاتا تھا۔ کئی اینکر دوست ناراض ہوتے تو یہی جواب دیتا کہ یار کچھ ناظرین پر بھی رحم کریں‘ چار دن وہ ہمیں سنتے اور دیکھتے ہیں‘ تین دن انہیں آرام دیں۔ اپنی شکل بار بار دکھا کر انہیں بور نہ کریں۔ انہیں ان تین دنوں میں سکھ کا سانس لینے دیں۔ تین دن بعد جب آپ کی شکل دوبارہ دیکھیں گے تو انہیں زیادہ برا نہیں لگے گا اور شوق سے سنیں‘ دیکھیں گے۔
یہ بات سیاسی لیڈرز نہیں سمجھ سکتے جہاں خوشامد کا کلچر اب عام ہے۔ بعض دفعہ تو حیران ہوتا ہوں کہ اگر ان سب کے لیڈر اتنے مہان تھے جتنا وہ ہمیں بتاتے ہیں تو پھر اس ملک کی یہ حالت کس نے کر دی ہے؟ یہ ملک ان تمام حکمرانوں کے دور میں ایک سو ارب ڈالرز کا مقروض کیسے ہوگیا جن کی قابلیت اور شان کے قصیدے ہمیں یہ سب دن رات یہ سناتے ہیں؟ پرویز مشرف بھی عظیم لیڈر تھا‘ زرداری جیسا سمجھدار تو شاید اگلے سو سال میں پیدا نہ ہو‘ نواز شریف جیسی قیادت بھی شاید کبھی میسر نہ ہو‘ اور عمران خان ویسے ہی دنیا کے پہلے اور آخری ذہن اور قابل بندے ہیں۔ ان سب کے ہوتے ہوئے اس ملک کی یہ حالت کیسے ہوگئی ہے؟ دس دس چھوڑیں‘ دنیا میں قوموں کو ایک لیڈر بھی عظیم بنا دیتا ہے جیسے فرانس کو چارلس ڈیگال نے بنا دیا‘ برطانیہ کو چرچل بنا گیا اور جنوبی افریقہ کو نیلسن منڈیلا بنا گیا۔ ہماری بد نصیبی دیکھیں‘ اتنے عظیم سیاستدانوں نے ہم پر حکمرانی کی اور ان کے خوشامدیوں نے ان کی عظمت کی وہ بھی کہانیاں سنائیں جن کا ان لیڈروں کو خود بھی پتہ نہیں تھا‘ اس کے باوجود ہمارا سفر نیچے کی طرف ہی جاری رہا۔
ہاں ایک بات ضرور مشترک ہے ان تمام لیڈروں میں کہ انہوں نے اپنی ساری ذہانت اپنے ذاتی کاروبار چلانے یا اپنے دوستوں‘ مشیروں یا چندہ دینے والوں کی زندگیاں بدلنے پر لگا دی۔ شاید ان سب کی قابلیت اور ذہانت وہیں خرچ ہو گئی جو ملک اور قوم کے کام آنی تھی۔ زرداری صاحب کا کاروبار دیکھ لیں‘ ایک سے آٹھ شوگر ملیں بن گئیں‘ سرے محل سے دوبئی تک کا محل خرید لیا‘ سوئس میں چھ ارب روپے رکھ لیے۔ آپ اگر بلاول بھٹو کی جائیداد کی تفصیلات گننے بیٹھیں تو شام تک بھی ان کے گوشوارے آپ پورے نہیں پڑھ سکیں گے۔ اسی طرح نواز شریف کی جائیداد دنیا کے پانچ براعظموں تک پھیل گئی۔ سلمان شہباز کے منی لانڈرنگ کرنے کی وارداتوں کو غور سے پڑھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ شریف فیملی کے پاس کتنا زرخیز ذہن ہے۔ بس یہ سب ذہانت ملک اور قوم کو لوٹنے کے کام آئی۔ ابھی عمران خان کو دیکھ لیں‘ جو فرماتے تھے: یہ سب خوشامدی ہیں جنہیں اپنے لیڈروں کی خوشامد کے سوا کوئی کام نہیں۔ ان کی ساری ذہانت‘ بہادری اور قائدانہ صلاحیتوں کا سارا فائدہ بھی ان کے دوستوں اور مشیروں نے اٹھایا ہے جو انہیں پارٹی فنڈ دیتے رہے یا پھر چندہ۔ ادویات سکینڈل ہو‘ شوگر سکینڈل‘ آئی پی پیز‘ گندم سکینڈل‘ ہر جگہ ان کے دوستوں کے نشانات ملتے ہیں۔ یوں ہمارے ان سب لیڈروں کی سب ذہانت‘ قابلیت اور ایمانداری کے فوائد عوام تک پہنچے ہوں یا نہیں لیکن ان کے اپنے خاندان‘ خاندانی کاروبار اور یار دوستوں نے خوب اٹھائے ہیں۔ امریکی محاورہ یاد آرہا ہے کہ اگر آپ اتنے ذہین اور چالاک ہیں تو پھر آپ امیر کیوں نہیں؟
اگر ان سیاسی پارٹیوں کے دن رات خوشامدی وزیروں‘ ایم این ایز اور پارٹی ترجمانوں کے بقول ان کے عظیم قائدین اتنے سمجھدار‘ چالاک‘ قابل اور قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ہیں تو صرف ان کے اپنے خاندانوں‘ اور چندہ کھلانے والوں کو ہی ان کی ذہانت سے کیوں فائدہ ہوا؟ ان کی ذہانت کا فائدہ پاکستان اور عوام کو کیوں نہیں پہنچا؟ان کے فراڈیے یار دوست تو ارب پتی بن گئے‘ پاکستان امیر کیوں نہیں ہوا؟(بشکریہ دنیا)۔۔