تحریر: قادر غوری
میڈیا کو کنٹرول کرنے کیلیے جلد چینلز مالکان کے گرد اور کچھ اینکرز کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے گا اور مالکان میں سے ایسے مالک کا انتخاب کیا جائے گا جسکا سیٹ اپ خاص نا ہو جس پہ ہاتھ ڈالنے سے زیادہ آواز نہ اٹھے اسی طرح اینکر بھی جس کے بعد مالکان کی پرانی فائیلیں اٹھا کر تفتیش کیلیے بلایا جائے گا اور یوں سب عالم پناہ تسی گریٹ او جو وہ کہو گے اسی حاضر اساڈا چینل حاضر اور یہ سب عدالتی پراسس کے ذریعے ہوگا تاکہ زیادہ آواز اٹھے تو عدالتی فیصلہ ہے کیا کہہ سکتے ہیں
یہ تجویز زیرغور ہے کچھ خاص لوگوں کی جانب سے وزیراعظم کو دی گئی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ” یہ سب کرے گا کون؟
تو بھیا
ابھی تو تجویز ہے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا؟ کریں گی عدالتیں کرپشن پہ ایکشن سکینڈل سوموٹو یا پھر نیب ؟
اس تجویز پہ غور ہورہا تاکہ کسی ایک کو مثال بنائیں سب ڈر جائیں۔
اب آپ کہیں گے کہ ” صحافی نہیں ڈرتا، مالکان کی تو جن کے کروڑوں کے کاروبار ہیں بلیک منی وائیٹ میں تبدیل ٹیکس کی فائلیں دبی ہوئی ہیں اور بھت کچھ ہے جو پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی ۔
اب آپ یہ سوچ کر بے فکر ہورہے ہونگے کہ ” یہ 85ء نہیں 2018 ہے اب میڈیا کو قابو رکھنا اتنا آسان نہیں ہوگا سیکڑوں چینلز ہیں لاکھوں صحافی ہیں اور تو اور سوشل میڈیا بھی تو ہے ۔
تو جناب ۔ 2018 میں ہی سینسر شپ کی انتہا ہے جو 85 میں نہیں ہوئی تھی اور یہ بات آج کل ہر دوسرا صحافی کہتا نظر آتا ہے کہ میڈیا آزاد نہیں ہے ۔
نصیحت :
میڈیا ورکرز کے لیے مشکل دور ہے۔ صحافیوں کے معاشی قتل کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔
صحافیوں کا ایک چھتری تلے متحد ہونا وقت کی ضرورت ہے ورنہ تقسیم کی صورت میں سیاستدانوں کی طرح ایک ایک کرکے کٹتے جائینگے۔ خیر تجویز ہے رد بھی ہوسکتی ہے ۔۔!!
نوٹ: ہو وہ ہی رہا ہے جو میں ایک سال پہلے سے کہتا آرہا ہے ۔ متحدہ کے بعد زرداری کا نمبر تھا لیکن ڈان لیکس کی وجہ سے پہلے نواز کا نمبر لگا دیا ۔ زرادری کے بعد نمبر میڈیا کا آنا ہے ۔ اور پھر سب سے مزاحیہ احتساب عمران خان کاہوگا ۔۔۔ (غوری نامہ)
(غوری نامہ اسلام آباد کے معروف صحافی قادر غوری کی وال سے اڑایا گیا ہے جس سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونئیر)۔۔