تحریر: سید بدرسعید۔۔
مجھے دو سال لگے ۔نیو میڈیا کے حوالے سے ایک تجربہ میرے ہوش سنبھالنے کے بعد ہو چکا تھا ۔ صحافت کی دنیا میں پرنٹ میڈیا کا تختہ جس طرح چینلز نے الٹا وہ میرے سامنے کی بات ہے ۔ جب چینلز کا آغاز ہوا تو اخبارات کے صحافی مذاق اڑاتے تھے ۔ ان کی سب سے بڑی دلیل یہی تھی کہ اخبار کی خبر ریکارڈ کا حصہ بنتی ہے لیکن چینل پر ٹیکر چلا جس نے دیکھا تو دیکھ لیا ورنہ بات ختم ہو گئی ۔ اس کا کل کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا سو یہ پانی کے بلبلے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ اس وقت جو صحافی رسک لے کر چینلز میں چلے گئے وہ لاکھوں کمانے لگے لیکن جنہوں نے اس نئے میڈیا کو قبول نہ کیا اور پرنٹ میڈیا میں رہے ان کے لئے حالات خراب ہونے لگے ۔ تنخواہوں ، مراعات سمیت زمین آسمان کا فرق درمیان میں آ گیا ۔ میں نے وہ وقت بھی دیکھا جب ہمارے انتہائی سینئر اخباری صحافیوں کی نسبت کل کے لونڈے چینلز پر آ کر کیریئر کے آغاز میں ہی ان سے زیادہ پیکج لینے لگے ۔ یہ سب میرے لئے الارمنگ تھا ۔ میں نے اس کے بعد نیو میڈیا پر نظر رکھنے کی کوشش کی ۔ ان لوگوں سے دوستی کی جو نیو میڈیا یا ایڈوانس میڈیا کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ میں نے ایک کتاب ” صحافت کی مختصر تاریخ ” کے نام سے لکھی جس کے دوران پرانے میڈیا سے نئے میڈیا کے سفر کا بغور جائزہ لیا۔ پھر دیگر ممالک کے ریسرچ ورک کو کھنگالا تو انکشاف ہوا کہ دنیا ہم سے بہت آگے جا چکی ہے ۔ چیزیں جس تیزی سے تبدیل ہوئی ہیں ہمیں ان کا احساس تک نہیں ۔ مثال کے طور پر میں نے چین کے ایک ریسرچ اسکالر کی پروفائل چیک کی تو وہ 2002 میں سوشل میڈیا کو نیو میڈیا کے طور پر اپنی تحقیقی کا موضوع بنا چکے تھے ۔ میں ان سے متاثر ہوا کہ چین میں میڈیا آزاد نہیں ہے ، سوشل میڈیا بھی ان کا دنیا سے الگ ہے ۔ اس قدر کم سکوپ کے باوجود جب میں نے فیس بک پر قدم نہیں رکھا تھا تب ان کے اسکالرز سوشل میڈیا پر تحقیقی مقالے لکھ رہے تھے ، انہی ریسرچر نے 2008 میں طالبان پر ریسرچ پیپر پیش کیا تھا جبکہ یہ دراصل ہمارا موضوع تھا جس پر ہمارے یہاں آج بھی یونیورسٹیز میں تحقیق نہیں ہوتی ۔ چین نے سی پیک سے کافی پہلے اس ایشو کا جائزہ لے لیا تھا ۔ بہرحال میں نے نیو میڈیا پر توجہ دینی شروع کی ۔ سچ کہوں تو جگاڑ لگانے کے راستے ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی ۔ 2020 کے آغاز میں مجھے موقع ملا اور میں نےانٹرنیشنل میڈیا کانفرنس میں سوشل میڈیا پر اپنا ریسرچ پیپر پیش کیا ۔ میں نے اس سفر کے دوران پی آر کے نئے ٹولز سیکھے اور انہیں قریب سے دیکھا ۔ مجھے اب بھی لگتا ہے کہ پی آر میں میڈیا مانیٹرنگ سسٹم ، انٹرنل ایکسٹرنل کمیونی کیشن ماڈلز ، سوشل میڈیا مانیٹرنگ ، فاسٹ کراس کائونٹر میسجنگ کمیونیکیشن سمیت بہت سے نئے شعبوں میں آج بھی میڈیا پرسن کے لئے بہت سکوپ ہے کہ ہمارے یہاں ابھی تک 80 فیصد سے زیادہ قدیم طریقہ کار ہی اپنائے جا رہے ہیں ۔ میں دو سال تک اپنے چند دوستوں کو قائل کرتا رہا کہ ہم چند دوست مل کر یہ ساری مارکیٹ کنٹرول کر سکتے ہیں ۔ یقین مانیئے کہ میڈیا ہاوسز کے ایسے دوست بھی قدم اٹھاتے ہوئے گھبرانے لگے جن کی مالی پوزیشن موجودہ حالات کی وجہ سے خراب ہو رہی ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ اب یہ سب ایک شخص کا کام نہیں ہے ۔ یہ ٹیم ورک ہے اور ایک مضبوط ٹیم کے بنا ہم اس سمندر میں چھلانگ نہیں لگا سکتے ۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے ایک بڑی مارکیٹ ابھی بھی ہماری منتظر ہے ۔مثال کے طور پر یوٹیوب پر لوکل مارکیٹ کے اشتہارات کی جگہ ابھی تک خالی ہے ۔ یہ بہت بڑی مارکیٹ ہے جس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔اسی طرح مجھے ان تجربات کے دوران بہت سے آئیڈیاز ملے لیکن اکیلے شخص کے بس کی بات نہیں ہے ۔ میں نے آہستہ آہستہ سافٹ ویئر ڈویلپرز ، سوشل میڈیا مارکیٹنگ اورکمیونی کیشن ایکسپرٹس کو اکٹھا کرنا شروع کیا ، انہیں کچھ مشورے دیے اور سمجھایا کہ یہ سب اکٹھے ہو کر پوری دنیا کی مارکیٹ سے اپنا حصہ اٹھا سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر یوٹیوب نے اشتہارات کے لئے کچھ شرائط رکھی ہوئی ہیں ۔ کچھ آئی ٹی ایکسپرٹ مختلف سافٹ ویئر کے ذریعے یہ شرائط مکمل کر کے دینے کے پیسے لے رہے تھے ، پھر گوگل نے مصنوعی انٹیلی جنس سسٹم کے تحت انہیں پوائنٹ آوٹ کرنا شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے کلائنٹس کے چینلز تباہ ہونے لگے ۔ اس کے بعد یہی کام اوریجنل انداز میں شروع ہوا ۔ طریقہ یہ ہے کہ ایک کمیونٹی اکٹھی ہوئی ۔ سب کے شیئرز طے کئے گئے ۔ کچھ ایس او پیز بنائے گئے ۔ اب مختلف لوگ مختلف شہروں بلکہ ایک سے زیادہ ممالک میں بیٹھ کر مختلف اکائونٹس اور سسٹم کی مدد سے ایک چینل پر فوکس کرتے ہیں اور دنوں میں اس کے سبسکرائبرز ، واچ ٹائم ویوز وغیرہ بڑھا کر یوٹیوب کی شرائط مکمل کر دیتے ہیں ۔ ان سب کو ایک ہی کلک پر ایک ہی وقت چینل کا لنک مل جاتا ہے ، ٹیم سے منسلک تمام لوگوں کو ان کا کام معلوم ہے ، سبھی کو کلائنٹس سے ملنے والے پیسوں میں سے ان کا حصہ مل جاتا ہے ۔ یہ کام آپ دوست بھی مل کر کر سکتے ہیں لیکن بات وہی ہے کہ ہمیں نیو میڈیا کو سمجھنا پڑے گا ، رسک لینا ہو گا اور ایمانداری ٹیم ورک کے طور پر کام کرنا پڑے گا ۔ نیو میڈیا کا مذاق مت اڑائیں اسے سنجیدہ لیں اور اپنے وقت میں اس کو کور کر لیں ۔میں یہ سب اس لئے بھی راز میں نہیں رکھنا چاہتا کہ یہ منزل نہیں ہے ، جب تک آپ کمیونٹی بنا کر یہ کاروبار شروع کریں گے ، پہلی ٹیم اس سے اگلی منزل کی جانب سفر کر رہی ہو گی ، آپ پاکستان میں ہوں گے وہ لندن میں کلائنٹس سے ڈیل کر رہی ہو گی ، آپ لندن تک پہنچیں گے تو وہ کسی اور رخ سے کوئی نیا کام کر رہی ہو گی ۔ سوشل میڈیا اور خصوصا نیو میڈیا تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے ۔ میں خود سنٹرل میڈیا سیل سمیت کچھ نئے پراجیکٹس کی جانب دیکھ رہا ہوں ۔ ابھی تو چینل مالکان اور بڑے انویسٹرز نے یوٹیوب کی سمت آنا ہے ، اس وقت اصل مقابلہ ہو گا ۔ ان لوگوں نے جس طرح بڑے شاپنگ مالز بنا کر محلے کے جنرل سٹور والے کو تباہ کیا تھا اسی طرح سنگل یوٹیوبر کے لئے مشکلات کھڑی کریں گے ، آپ یا میں کم سرمائے کے ساتھ ان کی مہنگی پروڈکشن کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔ ہمیں اس سے قبل اپنی جگہ بنانی ہے ، اسی لئے میں نے دوستوں سے کہا تھا کہ اگلےچند ماہ کی جو گیم بچی ہے اس میں پاکستان کے لئے موناٹائز والی گیم اوپن کر دینی چاہئے۔ کچھ دوست مذاق بنائیں گے ، کچھ حیرت سے دیکھیں گے ، کچھ سنجیدگی سے فورا عمل کریں گےاور کچھ اگلی منزلوں تک ہمارے ساتھ ہوں گے ۔ یہ سارا سفر چلتا رہے گا ۔ سوشل میڈیا پر بھی یوٹیوب ، انسٹا ، واٹس ایپ مارکیٹنگ اور ٹک ٹاک کے بعد تیزی سے نئی چیزیں آئیں گے ۔ اس کے بعد ایک نیو میڈیا پھر جنم لے گا جس کا بہت سے لوگ اسی طرح مذاق اڑائیں گے اور چند لوگ اسے وقت پر سمجھ کر پیسے کمائیں گے (سید بدر سعید)