تحریر: جاوید چودھری۔۔
میرے استاد نے ہنس کر 30 سال قبل مجھے ’’بغلول‘‘ کاخطاب دیا تھا‘ بغلول ایک مسکین پرندہ ہوتا ہے لیکن پنجابی میں غیر تہذیب یافتہ‘ نالائق اور جھلے کو بغلول کہتے ہیں‘ میں نے اپنے استاد سے اتفاق کیا‘ کیوں؟ کیونکہ میں بغلول تھا اور میں آج بھی ٹھیک ٹھاک ہوں تاہم وقت کے تھپیڑوں نے ذات کی چند بڑی نوکیں‘ چند زیادہ کھردرے کونے رگڑ کر برابر کر دیے ہیں‘ میں ہرگز ہرگز تہذیب و شائستگی کا نمونہ نہیں ہوں‘ میرے جیسے کھیرے کھانے والے لوگ مہذب ہو بھی نہیں سکتے‘ یہ الٹے بھی لٹک جائیں تو بھی یہ لٹکانے کو آویزاں نہیں کہہ سکیں گے‘ یہ کافی کو لسی کی طرح پھونک مار کر ہی پئیں گے اور یہ اپنا ڈکار اور خارش کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔
ہم پاکستانی ہیں اور ہم جنت میں بھی پاکستانی رہیں گے‘ ہم وہاں بھی شراب طہورہ کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونگے لہٰذا اللہ معاف کرے میں آپ کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا‘ میں بس آپ کی چند ایسی نوکوں اور کانٹوں کی نشان دہی کر رہا ہوں جن سے دوسروں کے موڈز‘ طبیعت اور احساسات زخمی ہوتے ہیں‘ آپ اگر ان کانٹوں کو رگڑ لیں تو آپکے دائیں بائیں موجود لوگوں کی زندگی اچھی گزرے گی تو ہم چند مزید ایسی حماقتوں کا ذکر کرتے ہیں جنکی وجہ سے ہم بغلول بن جاتے ہیں۔
میرے ایک دوست ہیں‘ ریستوران چلاتے ہیں‘ ان کا ریستوران پورے ملک میں مشہور ہے‘ یہ بزنس ان کے والد نے اسٹارٹ کیا تھا‘ ان کے والد میرے والد کے دوست تھے‘ میں دو سال قبل ان کے ریستوران پر گیا‘ ہمارے ساتھ ایک بغلول بھی تھے‘ میرے دوست کے والد کا تازہ تازہ انتقال ہوا تھا‘ میں ان کے والد کی تعریف کرنے لگا‘ میاں صاحب ایسے تھے‘ میاں صاحب ویسے تھے‘ وہ بہت شریف اور شان دار انسان تھے وغیرہ وغیرہ‘ وہ اپنے والد کا ذکر سن کر آب دیدہ ہو گیا‘ مجھے بھی اپنے والد یاد آنے لگے‘ ہم خاموش ہو گئے‘ اس دوران ہمارے ساتھ بیٹھے بغلول نے کرسی پر کروٹ بدلی اور کہا ’’جناب میاں صاحب اتنے بھی شریف نہیں تھے‘ انھوں نے دو تین شادیاں کی تھیں اور اب بچے جائیداد کے لیے لڑ رہے ہیں‘ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے سائیکل کو پنکچر لگاتے بھی دیکھا تھا‘‘ ہمارے ہاتھوں پر پسینہ آ گیا لیکن وہ صاحب مرحوم کی تعریف پر جتے رہے‘ اسی طرح میرے ایک دوست کے والد پی سی او جج تھے۔
وہ امریکا کے دورے پر گئے‘ کسی بغلول نے انھیں جوتا مار دیا‘ یہ خبر میڈیا تک نہ پہنچ سکی لیکن لوگوں کے تذکروں میں موجود تھی‘ میں جج صاحب کے بیٹے کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا‘ ہمارے ساتھ ایک بغلول بھی موجود تھے‘ یہ آج کل حکومتی جماعت میں شامل ہیں اور پوری قوم اکثر ان کے خیالات سے لطف اندوز ہوتی رہتی ہے‘ یہ کھانا کھاتے کروٹ بدل کر بولے‘ خان صاحب یہ بتائیں کیا جج صاحب کو واقعی امریکا میں جوتا پڑ گیا تھا‘ میرے دوست کا رنگ فق ہو گیا‘ میں نے بغلول کو نیچے سے ٹھڈا مار ا لیکن انھوں نے سگنل سمجھنے کی بجائے پاؤں سمیٹے اور مسکرا کر بولے ’’آپ پریشان نہ ہوں‘ پوری دنیا میں مشہور لوگوں کو جوتے پڑتے رہتے ہیں اور آپ کے والد بھی جوتا کھا کر ان مشہور لوگوں میں شامل ہو گئے ہیں۔
آپ مبارک باد کے قابل ہیں‘‘ اسی طرح ایک بار پروگرام کے وقفے میں ہمارے ایک مہمان نے دوسرے مہمان کو ایک سیاسی قائد اور ایک گلوکارہ کا قصہ سنانا شروع کر دیا‘ میں انھیں روکتا رہ گیا مگر وہ سناتے چلے گئے اور دوسرا مہمان بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہا‘ میں نے پروگرام کے بعد انھیں بتایا جناب آپ جس گلوکارہ کا ذکر کر رہے تھے وہ ان کی سگی خالہ ہے‘ ہمارے معزز مہمان نے شرمندہ ہونے کے بجائے قہقہہ لگایا اور کہا ’’اچھی بات ہے‘ بھانجے کو خالہ کے کارناموں کا پتا ہونا چاہیے‘‘۔
میرے اپنے ’’دور بغلول‘‘ کا واقعہ ہے‘ میں 2001 میں امریکن ایمبیسی گیا‘ تازہ تازہ نائین الیون ہوا تھا‘ سارا اسٹاف مغموم تھا‘ میں ’’ٹوئن ٹاورز‘‘گرنے سے ایک ہفتہ پہلے اس کی بالائی منزل کا وزٹ کر کے آیا تھا‘ مجھے سے ایمبیسی کے پولیٹیکل اتاشی نے نائین الیون کے بارے میں پوچھا اور میری ہنسی نکل گئی اور میں نے ہنس ہنس کر بتانا شروع کر دیا‘ میں نائین الیون سے صرف ہفتے کے فاصلے پر تھا‘ میں صاف بچ گیا ورنہ آج دیوار پر میری تصویر بھی ہوتی‘ میں نے داستان گوئی کے دوران دائیں بائیں دیکھا تو محسوس ہوا محفل میں سناٹا ہے‘ کوئی شخص میری بات پر ہنس نہیں رہا‘ لوگوں نے اپنے چہرے سینے پر لٹکا رکھے ہیں۔
مجھے اچانک محسوس ہوا میں جس واقعے کو مذاق سمجھ رہا ہوں وہ امریکی تاریخ کی سب سے بڑی ٹریجڈی ہے‘ ان کے چار ہزار لوگ مر گئے ہیں اور میں یہ واقعہ اسے لطیفے کی طرح سنا رہا ہوں‘ میں شرمندہ ہو گیا‘میں اس کے بعد جہاں بھی جاتا ہوں شروع میں سیریس رہتا ہوں اور جب تک ماحول کا اندازہ نہ ہو جائے ہنستا نہیں ہوں‘ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا ہم پنجابی کاؤنٹر پر پہنچ کر اپنے اپنے ہاتھ جیب میں ڈال لیتے ہیں اور ’’ میں دوں گا‘ میں دوں گا‘‘کا نعرہ لگا کر لڑنا شروع کر دیتے ہیں‘ یہ حرکت بھی ناشائستہ ہے اور میزبان کی توہین ہے‘ پے منٹ میزبان کا حق ہوتا ہے۔
دوسرا اگر کوئی شاپنگ کر رہا ہے تو آپ اسے اپنی طرف سے ایک آدھ چیز لے دیں اور اس کے بعد اسے اپنی شاپنگ خود کرنے دیں’’میں دوں گا‘‘ واہیات حرکت ہے‘ میں نے ایک بار ایک ائیر پورٹ پر اپنے دو ساتھیوں کو کافی کی پیش کش کی‘ ایک ساتھی فوراً بولے ’’بہت اچھی بات ہے لیکن کافی کی پے منٹ میں کروں گا‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’سر پہلے کافی شاپ تک پہنچ لینے دیں۔
آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے؟‘‘ وہ تھوڑا سا شرمندہ ہو گئے اوربولے ’’ہم لوگ ایک بار اپنے محلے کے حافظ صاحب کو عمرے پر لے گئے‘ ہم دس لوگ تھے‘ ہمارا ایک دوست کنجوس تھا‘ اس نے سارا راستہ اپنی گانٹھ نہیں کھلنے دی‘ ہم جدہ پہنچے اور امیگریشن کی لائین میں لگ گئے‘ حافظ صاحب پہلے نمبر پر تھے اور وہ کنجوس دوست آخر پر‘ دوست کے ذہن میں نہ جانے کیا خیال آیا‘ وہ اونچی آواز میں ان سے مخاطب ہوا ’’حافظ صاحب میں اب آپ کے سارے گلے دور کر دوں گا‘ عمرے کے بعد آپ کی ٹنڈ کے پیسے میں دوں گا‘‘ حافظ صاحب شرمندہ ہو گئے اور ساری قطار کی ہنسی نکل گئی‘ وہ دوست یہ واقعہ سنا کر بولے ’’میں بھی اپنی طرف سے ٹنڈ پکی کر رہا تھا‘‘۔
ہم میں سے بے شمار لوگ کھانے کی میز پر بیٹھ کر نیپکن سے ناک صاف کر دیتے ہیں‘ یہ بھی غیر مہذب عادت ہے‘ ناک ٹشو سے صاف کی جاتی ہے‘ نیپکن صرف قمیض کو کھانے کے داغوں سے بچانے کے لیے ہوتے ہیں‘ ان سے ہاتھ بھی صاف نہیں کرنے چاہییں‘ ہم منہ کھول کر میز پر خلال بھی شروع کر دیتے ہیں جب کہ خلال کرتے وقت منہ پر دوسرا ہاتھ رکھ لینا چاہیے تا کہ آپ کے دانت نظر نہ آئیں‘ ہم ریستورانوں میں بل دیتے وقت بھی سب کے سامنے نوٹ گننا شروع کر دیتے ہیں جب کہ نوٹ میز کے نیچے گننے چاہییں اور چپکے سے بل کے کور میں رکھ دینے چاہییں‘ آپ نے اگر کھانے کی کسی ڈش کو ہاتھ نہیں لگایا تو آپ کو چاہیے آپ اٹھنے سے پہلے ویٹر کو بتا دیں تاکہ وہ یہ ڈش ڈسٹ بین میں نہ پھینکے‘ آپ کو اگر کوئی کھانے پر بلائے تو آپ اس کے گھر کھانے کی چیز مثلاً کیک‘ فروٹ یا مٹھائی لے کر جائیں اور آپ اگر ویسے جائیں تو آپ کوئی دوسرا تحفہ لے کر جائیں‘ جوتا گفٹ کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔اس سے پرہیز کریں‘ دوسروں کے گھر ہمیشہ تیار ہو کر خوشبو لگا کر جائیں‘ سلیپنگ سوٹ میں اٹھ کر نہ چلے جائیں‘ غلط اوقات مثلاً لیٹ نائیٹ یا صبح سویرے کسی کے گھر نہ جائیں‘ کھانے کے اوقات میں بھی نہ جائیں اور اگر میزبان گھر پر موجود نہ ہوں تو آپ کسی قیمت پر اندر داخل نہ ہوں‘ باہر انتظار کریں یا مارکیٹ کا چکر لگا آئیں‘ آپ کسی دوسرے کے بچے بالخصوص چھوٹی بچی کو گود میں نہ اٹھائیں‘صرف سر پر ہاتھ پھیریں اور دور سے سلام کریں‘ اگر آپ کی بیگم‘ بیٹی یا ہمشیرہ ساتھ نہ ہوں تو آپ میزبان کی خواتین کو گفٹ نہ دیں‘ یہ انتہائی معیوب حرکت ہو گی اور آپ دوسروں کے گھر قیام نہ کریں‘ ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس میں رہیں اور اگر مجبوری ہو تو پھر ان پر حکم نہ چلائیں‘ وہ جو کھلائیں وہ خوش ہو کر کھا لیں اور وہ جہاں رکھیں آپ وہاں رہ لیں‘ زیادہ نخرے نہ کریں‘ ہو سکتا ہے میزبان بے چارہ آپ کے نخرے افورڈ نہ کر سکتا ہو۔
آپ آخر میں بغلول ازم کا ایک اور دلچسپ واقعہ بھی سنیے‘ میں ایک بار اپنے ایک دوست کے ساتھ اس کے داماد سے ملنے گیا‘ بچوں کا نکاح ہو چکا تھا‘ چند ہفتوں میں رخصتی تھی‘ ہم سمدھی کے ساتھ بیٹھے تھے‘ اس دوران سمدھی کا ایک بغلول دوست آ گیا‘ سمدھی نے بغلول سے ہمارا تعارف کرایا ’’یہ میرے بیٹے کے سسر اور یہ ان کے دوست ہیں‘‘ بغلول نے ہمیں دیکھا‘ سسر کی طرف دیکھا اور پھر پوچھا ’’یہ آپ کے کس بیٹے کے سسر ہیں‘‘ سمدھی نے کہا ’’ہم نے ڈاکٹر مبشر کا نکاح ان کی صاحب زادی سے کیا ہے‘‘ بغلول نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کی قینچی بنائی اور پھر بائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی قینچی کے درمیان رکھ کر قہقہہ لگا کر بولا ’’یہ تمہارا وہی بیٹا ہے جس کی پیدائش کے چند دن بعد ہم نے نائی کو پھینٹا لگایا تھا‘‘ بغلول اس کے بعد دس منٹ تک ہنستا رہا اور ہمارے دماغ میں قینچی چلتی رہی۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔