تحریر: سید عارف مصطفی۔۔
عامر لیاقت کی 6 اگست کو الیکشن کمیشن کے سامنے طلبی ہے جہاں وہ کنگن کی اسیری کا حساب دینے جارہے ہیں ہ ان پہ اپنی دوسری شادی چھپانے کا الزام ہے ۔ کیونکہ انہوں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں طوبیٰ انورکو اپنی دوسری زوجہ ظاہر نہیں کیا تھا جبکہ گزشتہ ایک برس سے وہ انکا تمغہ خاوندیت سجائے بیٹھے ہیں لیکن میڈیا کی ایک معتبر ویب سائٹ عمران جونیئر ڈاٹ کام پہ یہ انکشاف سامنے آنے کے بعد انہیں یہ حقیقت تسلیم کرتے ہی بنی ۔ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ۔ چند ہفتے قبل ایسی ہی ایک غلطی پہ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو کے کاغذات نامزدگی مسترد کردیئے گئے تھے جس میں انہوں نے اپنی تیسری شادی کا احوال گول کردیا تھا تو پھربھلا یہ کیسے ممکن ہے کے ایک ہی قانون کی دو تعبیریں کی جاسکیں اور دو الگ نتائج اخذ کیئے جاسکیں ۔ ویسے اس ضمن میں عامر لیاقت کی توجیح بہت ستم ظریفانہ بلکہ اس انتخابی قانون کے مقصد کے لیئے نہایت حریفانہ ہے ۔۔
انکا کہنا یہ ہے کہ نامزدگی فارم میں صرف زیرکفالت اہلخانہ کے بارے میں پوچھا گیا ہے اور انکی دوسری اہلیہ انکے نہیں بلکہ ابھی تک اپنے والد ہی کے گھر رہتی ہیں اور انکی زیرکفالت نہیں ۔ جبکہ قانون کے طالبعلم ہی نہیں انصاف پہ مبنی رویئے پہ مبنی سوچ کا حامل ہر فرد اس حقیقت سے آگہی رکھتا ہے کہ کسی قانون کی تیاری کسی منشا اورمقصد کے تحت ہی کی جاتی ہے اور یہ نیت و منشاء اس قانون کی بنیاد ہوا کرتا ہے کہ جسے کسی بھی تعبیر و تشریح کے وقت کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور اس قانون کی واضح طور پہ منشاء یہ ہے کہ کسی امیدوار کے اہلخانہ کے بارے میں آگہی پائے ناکہ یہ جانچے کہ اسکے دستر خوان پہ گھر کا کون کونسا فرد بیٹھتا ہے۔۔
اس قانون کی تخلیق کا بنیادی مقصدسمجھنے کے لیئے کسی کا علامہ ہونا قطعی ضروری نہیں کیونکہ معمولی سی فہم و فراست رکھنے والا کوئی بھی شخص یہ بات باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ یہ قانون دراصل آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے صحیح اطلاق کے لیئے وضع کیا گیا ہے اور واضح طور پہ انتخابی امیدوار کی جانب سے ناجائز مالی مفادات بٹورنے کی حوصلہ شکنی کے لیئے ہے تاکہ وہ معروف طریقہ واردات کے طور پہ اپنے کالے مال کو چھپانے کے لیئے اسے اپنے اہل خانہ کے کھاتوں میں نہ ڈال سکیں اور اسی باعث انکے تمام اہلخانہ کے کوائف بھی طلب کیئے جاتے ہیں اور اگر کوئ شخص بیوی جیسے قریبی تعلق والے فرد کو ظاہر نہ کرے تو یہ اس حوالے سے صریح بدنیتی اور دھوکا دہی نہیں تو پھر اورکیا ہے ۔ جہاں تک 6 اگست کو عامر لیاقت کی الیکشن کمیشن میں طلبی کا تعلق ہے تو وہ نہ صرف اس دھوکے بازی کی ضمن میں ہے بلکہ اسکی دوسری وجہ یہ ہے کہ موصوف نے اپنی پوری انتخابی مہم میں خود کو ڈاکٹر ہی بتایا اور کہلوایا ہے جبکہ وہ نہ تو پی ایچ ڈی والے ڈاکٹر ہیں اور نہ ہی ایم بی بی ایس والے۔ ویسے ایم بی بی ایس کی تعلیم کے لیئے انہیں حیدرآباد کے لیاقت میڈیکل کالج میں داخلہ تو مل ہی گیا تھا کیونکہ گو وہ انٹر سائنس میں قلیل نمبر ہونے کے باعث کراچی میں تو کسی میڈیکل کالج میں داخلہ نہ لے پائے تھے لیکن متحدہ کی خدمت خلق فاؤنڈیشن کا سربراہ شیخ لیاقت حسین قوم کی نہ سہی اپنے بیٹے کی اتنی خدمت تو کرہی سکتا تھاکہ اسےتنظیمی زوربازو سے کسی نہ کسی طرح کراچی نہ سہی کم ازکم حیدرآباد کے میڈیکل کالج میں تو داخل کرا ہی دے ۔ لیکن عامر لیاقت یہاں سے تعلیم مکمل نہ کرسکے اور بھاگ نکلے کیونکہ ڈاکٹری کی سند کے لیئے پڑھنا تو بہرحال پڑتا ہی تھا اور اس ‘اولوالعزم’ کے پاس ان ‘فضولیات’ کے لیئے قطعی ٹائم نہ تھا۔ لیکن میڈیکل کالج سے بھاگ نکلنے کا مطلب یہ قطعی نہیں تھا کہ وہ ڈاکٹری ہی سے تائب ہوگئے ہیں کیونکہ اسکے بعد انہوں نے ایکزیکٹ کی جعلی ڈگری کے بل پہ خود کو ڈاکٹر بناکے ہی دم لیا ( واضح رہے کہ جعلی ڈگری لینا اور حاصل کرنا دونوں ہی قانونی طور پہ جرم ہیں)۔ اسکے بعد تو بس انکے ہمنواؤں کا ٹولہ تھا اور”ڈاکٹر ،، ڈاکٹر۔۔” کی تانیں ۔ ان میں کوئی تو عالم دین کے بہروپ میں تھا اور کوئی خود کو مفکر قوم باور کرتا تھا اور تو اور دکھی انسانیت کی خدمت کے جویا اور قوم کے سماجی مسیحا کہلانے والے بھی۔۔جن میں چند ٹی وی اسکرین پہ نظرآنے کے جنون میں مبتلا تھے اور کچھ چیک پالینے کی ہوس کا شکار تھے اور خود یہ موصوف بار بار اسی چینل پہ جاکےپروگرام کرتے نظر آئےکہ جسکے مالک کو انہوں نے جوبلی کا کرمنل قرار دیا تھا اوراسکے سنگین جرائم کے انکشاف کا وعدہ کیا تھا اور وہاں کبھی پلٹ کے نہ جانے کا عہد کیا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جب اسلام آباد کی ایک عدالت میں یہ جعلی ڈگری کیس پوری طرح سے بے نقاب ہوگیا تو پھر عامر لیاقت نے اپنی جعلی ڈگری بھی چھپالی لیکن اسکے باوجود انکا ڈاکٹر ڈاکٹر کہلانے کا خبط کم نہ ہوا اور انکے شوز میں لائے جانے والے ‘علماء و ماہرین’ کی جانب سے انکی یہ پیاس بجھائی جاتی رہی ورنہ وہ کیوں نہ یہ ہدایت جاری کردیتے کے جب وہ ڈاکٹر نہیں ہیں تو انکے نام کے ساتھ یہ سند نہ لکھی جائے اور نہ پکاری جائے ،،،، تاہم جب الیکشن کمیشن میں کاغزات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ آیا تو انہوں نے اپنی نام نہاد ڈاکٹری کی کوئی سند لف نہ کی کہ کہیں جعلسازی کا پول ہی نہ کھل جائے اور لینے کے دینے نہ پڑجائیں ۔ لیکن اس سب کے باوجود انکی تمام تر انتخابی مہم میں انہوں نے اپنے پوسٹروں، لیف لیٹس ، ہینڈ بلز اور بینرز میں اپنے نام کےساتھ ڈاکٹر ہی لکھوایا حتیٰ کہ حضرت نے اپنے ٹوئیٹر سے جاری کی گئی ٹؤیٹس میں بھی خود کو ڈاکٹر ہی لکھا جسکے پختہ ثبوت انکی ویب سائٹ اور فیس بک پیج پہ موجود ہیں اور اگر یہ مٹا بھی دیئے جائیں تب بھی انہیں موصوف کے ٹؤیئٹ اکاؤنٹ اور فیس بک کاؤنٹ سے توحاصل کیا ہی جاسکتا ہے ۔ اور یہ سب عمل ووٹرز اور عوام کے ساتھ کھلی فریب کاری اور دوٹوک بددیانتی کے مترادف ہے ۔۔
اسکے علاوہ الیکشن کمیشن کو یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی ہوگی کے وہ گزشتہ نومبر میں بول چینل چھوڑنے کے بعد اپنے ٹؤئیٹس اور ویڈیو بیان میں بول چینل کے مالک شعیب شیخ کو جوبلی کے کرمنل کا لقب دے کریہ بھی کہہ چکے ہیں کہ انکے پاس بول چینل اور اسکے مالک کےجرائم حوالے سے متعدد ایسی بھیانک کہانیاں موجود ہیں کہ جنہیں اگر سنادیا جائے تو سننے والوں کی رگوں میں لہو منجمد ہوجائے(اور یہ سب باتیں نیٹ اور یوٹیوب پہ اب بھی دستیاب ہیں) بعد میں اپنی سیاسی اغراض اور میڈیائی پیاس کی خاطر یہ باتیں چھپاکے ، واپس اسی چینل کو جوائن کرکے واضح طور پہ قوم سے ایک اور بڑے دھوکے اور خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور یوں وہ کسی طور آئین کے مطلوبہ تقاضوں کی رو سے مطلقاً صادق و امین نہیں رہے اور کمیشن کو ان سےانکے اس مجرمانہ عمل کا بھی حساب لینا چاہیئے یہ سب کرنا اس لیئے بھی ضروری ہے کہ ملک میں انتخابی عمل کی شفافیت اور امیدواروں کی ساکھ اور الیکشن کمیشن کے کردار پہ متعدد اطراف سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور اس ضمن میں اصلاح احوال کے لیئے الیکشن کمیشن کو کہیں سے تو پہل کرنی ہی ہوگی ۔ تو پھر اسکی ابتداء عامر لیاقت ہی سے کیوں نہ کی جائے ۔ ویسے بھی موصوف نے مبداء فیاض سےنام و نمود سے جڑے ہرمعاملے میں اؤل نظر آنے کا خصوصی ذوق پایا ہے۔۔(سید عارف مصطفی)۔۔
(سید عارف مصطفیٰ کافی پرانے اور منجھے ہوئے لکھاری ہیں، انہوں نے اپنے خیالات اور موقف اس تحریر میں سمودیا ہے جس سے ہماری ویب کا متفق ہونا ضروری نہیں، اگر عامرحسین (ڈاکٹر اور لیاقت آپ خود لگالیں) یا ان کا کوئی عقیدت مند اس حوالے سے اپنا کوئی موقف دینا چاہتا ہے تو ہم اسے بھی ضرور شائع کریں گے۔۔علی عمران جونیئر)۔۔