تحریر: شہزاد اقبال
کیا میڈیا کی چکا چوند دنیا اجڑ چکی ہے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا میرے ہمزادشازی کو جواب دینا اتنا ہی مشکل ہے جتنا پانچ بچوں کی ماں کو جب وہ شادی کی ساتویں سالگرہ پر اپنے شوہر سے پوچھتی ہےکہ سرتاج کیا آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟شوہر اس سوال پر پہلے مسکراتا ہے پھر مزید مسکراتا ہےاور پھر منہ ایک طرف کر نے میں ہی عافیت جانتا ہے۔ آپ کو بھی شائد میرے جواب کا اندازہ ہو گیا ہوگا کیونکہ بقول شاعر
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
ایک زمانہ تھا اور بڑا معصوم زمانہ تھا کہ جب ہر کوئی میڈیا کی اس بے ثبات دنیا میں آنے کا خواہش مند تھا ۔لڑکا ہو یا لڑکی ،جس نے چار جماعتیں پڑھی ہوتیں یا جس کے پاس ماسٹرز کی چار ڈگریاں ہوتیں اس کی دلی تمنا یہی تھی کہ میڈیا میں آیا جائے،سکرین پر جلوہ گر ہویا جائے بھلے دنیا جل بھن جائے دنیا کا کام ہی کیا ہے لیکن میڈیا پر آنا ضرور ہے۔
خیر ہمارے تعلیمی ادارے بھی اس حوالے سے حاتم طائی ثابت ہوئے ڈگریاں ایسی بانٹیں جیسے اندھا مڑ مڑکر اپنوں میں ریوڑیاں بانٹتاہے۔ ایسے میں کیا سرکار اور کیا غیر سرکار سبھی نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور پھر ان دھلے ہاتھوں سے ایسے ہاتھ کی صفائی دکھائی کہ سفید پوش اور رنگین پوش سب دیکھتے رہ گئے۔ زندگی کی رنگینی کے خریداروں کے لئے میڈیا کی ڈگری ہی سب کچھ تھی ۔ ایم بی اے ،سی اے اور کسی حد تک ڈاکٹری اور انجینئر نگ کی ڈگری بھی وہ کشش نہیں رکھتی تھی جتنی میڈیا کی ڈگری میں تھی اور اس کی وجہ ممکنہ پیسہ ،شہرت کے علاوہ ششکا،چسکا اور ٹیکا تھا ۔
پھر ہوا یوں کہ میڈیا کی منڈی میں مندی آنے لگی۔خواہش مندوں کی قطار در قطار تھی اور آسامیاں چند تھیں۔ منڈی کے بیوپاروں نے دیکھا کہ طلب گار زیادہ ہیں تو ان کی رالیں ٹپکنے لگیں کچھ نے اپنے قیمتی نگینے ضائع کر دئیے تو کچھ نے تازہ دم کمک کو حسیں سپنوں کے جال میں پھانس لیا اور وہ پنچھی جو بلندی پرواز کے متمنی تھے انہیں باتوں کی پستی کی مار مار کر میڈیا کے حسیں پنجرے میں قید کرلیا،چند مہینے تک انہیں دانہ پانی بھی نہیں دیا لیکن یہ معصوم اسی میں خوش تھےکہ وہ میڈیا کے حسیں سبزہ زار میں ہی اسیر ہیں اور ایک دن اس گلشن میں بہار آئے گی اور وہ بھی ایک روز اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دھارتے دیکھیں گے اور یہی خام خیالی انہیں لے ڈوبی۔
اس چکا چوند دنیا کے افق کا ایک اور تارہ اس وقت ٹوٹا جب جہاندیدہ صحافیوں کے کمر پر مہنگائی کے تازیانے برسنے لگے۔کوئی تڑپا تو کوئی سسکا اور جب انہوں نےسکہ بند اور غیر سکہ بند خبروں کے بیو پاروں کی جانب تنخواہ طلب نظروں سے دیکھا تو کہا گیا کہ اگلے ہفتے اور جب اگلا ہفتہ آتا تو انہیں اگلے مہینے کے انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جاتا اور یوں صحافیوں کو ڈکشنری میں لکھے’ کالی جمعرات‘ کا مطلب سمجھ میں آنے لگا۔
اس دوران میڈیا منڈی میں چند ایسے مشاق بازی گر بھی دیکھنے میں آئے جو چرب زبانی میں اپنا لوہا منوا چکے تھے ۔ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ صحافیوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اوراپنا پیٹ بھر کر یہ جا وہ جا۔میڈیا کی اس اندھیر نگری میں چینلز بند بھی ہوتےرہے، صحافی بے روزگار بھی ہوئے بیمار بھی اور بچھڑتے بھی رہے لیکن اقبال انہی کا بلند ہوا جس کے نام کے ساتھ یہ پانچ حرفی لفظ جڑا تھا۔یہ بلند مرتبت انصاف کی دیوی سے بھی بچ گئے اور حکومتی اداروں کو بھی چکمہ دے گئے۔اور جوطرم خان اورپھنے خان چینل سے نکلے تھے انہوں نے یوٹیوب پر اپنے چینل کھول لئےاب مسئلہ یہ ہےکہ 22 کروڑ عوام ہیں اور44 کروڑ یوٹیوب چینل ۔ ایسے میں بندہ دیکھےتو دیکھے کیا؟
عہد کورونا شروع ہوا تو نیا رونا شروع ہو گیا ۔سارا پاکستان بند لیکن بند پاکستان دکھانے والے میڈیا ہاؤسز کھلےہیں۔کچھ کمزور دل اور کچھ کمزور دماغ صحافی تو فوراً بھاگ نکلے اور جو سخت جان تھے ان پر سختی کے دن شروع ہو گئے۔ کہیں بارہ گھنٹے کی شفٹ تو کہیں چوبیس گھنٹے کی شفٹ،چھٹیاں بند اور سر پر ’’سیلری کٹ ‘‘کی تلوار الگ سے لٹکنے بلکہ چلنے لگی ۔دنیا کو احتیاط کا درس دینے والے خود سب سے زیادہ بے احتیاطی کا شکار ہوئے۔کسی دل جلے نے کہا صحافی تو کورونا پروف ہیں ۔پھر وہ وقت بھی آیا جس کا کورونا پروف صحافیوں کو ڈر تھا خبریں آنا شروع ہوئیں کہ فلاں چینل کے اتنے افراد کو کورونا ہو گیا ،فلاں صحافی کورونا کے باعث چل بسا ۔کبھی فی میل اینکر سر تھامے ریسکیو ڈبل ون ڈبل ٹو میں بیٹھتی دکھائی دی تو کبھی کوئی رپورٹر کورنا کی مثبت رپورٹ پکڑےپھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھتا نظر آیا ۔خوف اتنا کہ خوف کو بھی خوف آنے لگا اور و ہ جو چکا چوند دنیا میں بھاگ بھاگ کر آئے تھے اب وہی اس کو بھوت بنگلہ جان کر باہر کی طرف بھاگ رہے ہیں کیونکہ جان تو جان ہے جان تو سب کو عزیز ہےرہی بات میڈیا کی چکا چوند دنیا کی تو میرا تو یقین ہےہر عروج کے بعد زوال اور ہر زوال کے بعد عروج آتا ہے۔ ہوسکتا ہے میڈیا کی شکل بدل جائے لیکن کام بعینہ ویسا ہی رہے گا۔باقی رہے نام اللہ کا۔ ۔ (شہزاد اقبال)۔۔