تحریر: عمران ملک
کچھ عرصہ پہلے جب علیم خان نے سماء ٹی وی خریدا، اور پھر سینیئر وزیر پنجاب کے عہدے سے مستعفی ہوئے تو انہوں نے پی ٹی آئی کیلیے کیا خدمات انجام دیں اس پر میرا تجزیہ موجود جسمیں میں نے اپنے تئیں کہا کے وہ ایک کامیاب بزنس مین ہیں اور شاید سیاستدان کامیاب نہیں ہیں، وہ پی ٹی آئی تحریک کا ایک پلر تھے، انکے بغیر پی ٹی آئی نے جو بڑے بڑے جلسے کیے شاید انکی خان سے محبت کے بغیر ناں ہو پاتے، پھر ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی انکو فری ہینڈ دیا گیا، وہ اپنی اور پی ٹی آئی کی کیمپیئن ایک بزنس مین کیطرح چلا رہے تھے کیونکہ جب بزنس مین کیمپیئن چلاتا ہے، پیسے لگاتا ہے تو پھر وہ فورا ریٹرن کا سوچنا شروع کر دیتا ہے، علیم خان کو بھی ریٹرن جلد چاہیے تھا، لیکن وہ سیاسی سوجھ بوجھ کو اپنی کیمپیئن میں ناں لا سکے اور جب وزیراعلی پنجاب کی بات چل رہی تھی تو ‘ع’ کے لفظ تک وہ جیت چکے تھے، پھر کچھ انکے پراپرٹی بزنس کے کیسز انکے وزارت اعلی کی راہ میں رکاوٹ بن گئے، جب انکا نام وزارت اعلی کیلیے اسلام آباد میں چل رہا تھا تو کئی ٹی وی چینلز پر انکے نیب میں کیسز کے ٹکرز چلنا شروع ہو گئے، اور پھر دو تین دن ایسی دھماچوکڑی مچی کے قرعہ فال عثمان بزدار کے نام نکل آیا! علیم خان مانیں یا ناں مانیں انکی میڈیا ٹیم میڈیا ہینڈل ناں کر سکی اور وہ خود بھی کوئی تسلی بخش جواب ناں دے سکے، وہ ناتو کوئی جہانگیر ترین کیطرح جہاز اڑا سکے اور ناں ہی کرپشن فری ہونیکا تاثر پیدا کر سکے، پچھلے تین سال میں وہ وزیر خوراک، ہاؤسنگ اور سینیئر وزیر بھی رہے اور تمام وزارتیں خان پر پریشر ڈال کر لیں، لیکن کسی بھی موقع پر وہ ایک فرنٹ لائن وزیر ناں بن سکے، حالانکہ انکے پاس سینیئر وزیر کا جاندار عہدہ بھی تھا، اب انہیں ساڑھے تین سالوں میں انکا پارک ویو لاھور فیز ٹو سے پھیلتا پھیلتا اسلام آباد بھی جا پہنچا اور وزارت کیساتھ ساتھ اپنے بزنس کو بھی ملٹی پلائی کرتے رہے، فل پروٹوکول کیساتھ اپنے بزنس پر بھی بھر پور توجہ دیتے رہے، پی ٹی آئی حکومت نے بھی کبھی بھی انکے بزنسز پر اعتراض ناں کیا، اپنے آپ کو پی ٹی آئی کی سیاست سے لا تعلق کر لیا-
اکثر اوقات انکے پی ٹی آئی حکومت سے بیزاری کے ٹکرز چلتے، پھر چند دنوں بعد خان سے بنی گالہ میں ملاقات کی تصویر چھپتی اور راوی پھر چین ہی لکھتا، لیکن لگتا یوں کے کوئی روح بیقرار ضرور ہے جسے چین نہیں، خان کیخلاف جب اپوزیشن نے پنجے گاڑھنے شروع کیے تو پی ٹی آئی کے ورکرز یہ سوچ رہے تھے کے سب سے پہلے خان سے ناراض ترین اور علیم خان ہی خان حکومت کے دفاع میں کھڑے ہونگے، لیکن ترین صحت کو لیکر لندن جا پہنچے اور علیم خان نے اپنا گروپ لانچ کر دیا، پھر چپکے چپکے لندن یاترا بھی کر لی، لندن جا کر وہ خان کی گڈ بکس سے تو نکل گئے، لیکن مسلم لیگ ن کے وزیراعلی کے امیدوار ناں بن سکے، ترین گروپ نے بھی انھیں مکمل سپورٹ ناں دی، لندن سے واپسی پر بھی وہ متحرک دکھائی ناں دیئے، پھر انہوں نے ایک دن میڈیا کے سامنے بزدار کو لتاڑنے کی کوشش کی، اور یہاں تک کہہ ڈالا کے وزیراعلی کے پاس جو گاڑی ہے وہ تو میرے پاس بھی ہے، جو کہنا انکے شایان شان بالکل بھی نہیں تھا،
پی ٹی آئی کے یہ سینیئر ترین وزیر تھے، خان سے ڈائریکٹ رابطے میں بھی ہوتے تھے، اگر کل کلاں الیکشن میں پی ٹی آئی جیتتی تو پنجاب میں وزیراعلی کی چوائس بن سکتے تھے، لیکن کل جب ن لیگ کے حمزہ شہباز شریف کیساتھ کھڑے تھے اور وزارت اعلی کیلیے سپورٹ کر رہے تھے تو مجھے ایسے لگا جیسے انہوں نے ہمیشہ کیلیے اپنے ہاتھوں سے وزارت اعلی لکیر مٹا دی ہے، اب اگر پنجاب میں ن لیگ جیتے گی اور یہ لیگ کی سیٹ پر جیت بھی گئے تو پھر کیا سینیئر وزیر ہی بنیں گے؟ اور حمزہ کی وزارت اعلی کے اندر یہ کیسے آزادی کیساتھ کام کر سکیں گے، میں یہی کہوں گا کے علیم خان نے یہ ہلکی سیاسی چال چلی، اور جسطرح پرویز الٰہی نے کہا کے علیم خان کو اب ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کو ہی جاری رکھنا چاہیے، سیاست انکے بس کی بات نہیں،
لیکن آج جو انہوں نے دھماکے دار کانفرنس کی، اسکو شاید اتنی پذیرائی ناں ملتی لیکن چونکہ اب سماء ٹی وی کے مالک ہیں اسلیے اسی زعم میں کافی کچھ بول گئے، ہمارے استاد کہا کرتے تھے جو ادارہ بھی چھوڑو ہمیشہ مثبت نوٹ پر چھوڑو تاکہ واپسی کی گنجائش رہے لیکن آج جسطرح وہ پی ٹی آئی سے جدا ہوئے وہ انکی آنیوالی سیاست میں کیا کوئی بڑی تبدیلی لا سکے گا؟ آپ کیا سمجھتے ہیں؟(عمران ملک)۔۔