تحریر:آصف خان
صبح ہوتے ہی اور آنکھ کھلتے ہی ایک کپ گرماگرم چائے کی پیالی زندگی کو ایک نئی نوید دیتی ہے۔ شہر کا بابو صاحب ہو یا کسی گاؤں کا کسان، عورت ہو یا مرد چائے کے دو گھونٹ ہی نئی صبح کا آغاز ہیں۔ خدا انھیں سلامت رکھے جنھوں نے ہمیں یہ مشروب فراہم کرایا۔ویسے آجکل کی ماڈرن لڑکیاں اور خواتین چاٸے پینے سے اجتناب کرتے نظر آتی ہیں۔جس کےلیے وہ عذر پیش کرتی ہیں کہ چہرے کی اسکن متاثر ہوتی ہے۔
چائے کی مقبولیت سے کئی چیزیں پروان چڑھیں۔ چائے پہلے مٹی کے پیالے میں پی جاتی تھی۔ اس پیالے کو کلڑھ کہتے تھے۔ آہستہ آہستہ پیالی اور طشتری رواج میں آئی۔ طرح طرح کے پیالے بازار میں فروخت ہونے لگیں۔ اور اب اس کا رواج بھی ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ اب چائے بڑے چھوٹے مگوں میں پیش ہونے لگی ہے۔ اب چائے کی چینک اور کیتلیاں شاذونادر ہی نظر آتی ہیں۔ نئی طرح کی چینک، مختلف قسم کی کیتلی، چائے کو گرم رکھنے کے لیے غلاف یا ٹی کوزی اور کشتی پر بچھا ہوا ٹرے کور سب زندگی کی مصروفیات کی نذر ہو گئیں۔
کراچی شہر میں کوئٹہ ہوٹل کی چائے کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ان کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ چائے میں تھوڑی سی مقدار افیون کی اپنی چائے میں استعمال کرتے ہے بہرحال یہ ایک الگ بحث ہے یہ تو لیباٹری ٹیسٹ کے بعد ہی کہاجاسکتا ہے۔۔لیکن چائے ایک ایسا نشہ ہے جس میں خود بھی متاثر ہوں۔ کراچی میں پہلے آپ کسی سے بھی ملتے تو وہ آپ کو چائے کی آفر ضرور کرتا جو دوسرے روایات کی طرح اب ناپیدی کی طرف گامزن ہے۔ اور ایسا بھی ہر گز نہیں ہے کہ سارے ہی لوگ مہمان نوازی کے روپ میں چائے سے لطف اندوز ہوتے ہیں کچھ ایسے بھی دنیا میں ہیں جن کے لئے چائے کسی چرس سے کم نہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو چائے کو بطور ہاضمہ پھکی استعمال کرتے ہیں جب تک پی نہ لیں ان کا نظام انہضام درست ہی نہیں ہوتا۔ میرا ایک دوست ایسا بھی ہے جو کبھی اکیلا چائے نہیں پیتا ہے اور ہمیشہ دوستوں کو چائے پلاتا ہے ایک دن میں نے اس سے پوچھ لیا کہ چائے پلانے سے تجھے کیا حاصل ہوتا ہے تو وہ اپنا جواب کچھ یوں پیش کرتا کہ۔۔۔
گرم چائے کا ایک گھونٹ آپ کے مخالفین کے دلوں میں بھڑکنے والی آگ پہ پانی کی طرح اثر کرتا ہے۔(محمد آصف)